غزل
کہنے کو زندگی میں تو بیباک تھے بہت
لب سِی لئے کہ دل میں لگے چاک تھے بہت
مٹی سے کھیلنے کا سلیقہ رہا ہمیں
خاک ہم نے اوڑھ رکھی تھی پوشاک تھے بہت
سورج کو اپنی آنکھ میں رکھ کر وہ سو گئے
بستی کے سارے لوگ ہی چالاک تھے بہت
نشتر لگا تو حسن اُجاگر ہوا کہیں
پھولوں کی ہر قبا میں جڑے چاک تھے بہت
تنہائیاں بھی جل گئیں پرچھائیوں کے ساتھ
جنگل تھا آدمی کا تو خاشاک تھے بہت
سایہ پکڑ رہا تھا کوئی دھوپ میں کھڑا
اِس حادثے پہ لوگ بھی غمناک تھے بہت
اُن کو عذابِ زیست کا کرنا پڑا حساب
اپنے حسابِ زیست میں جو پاک تھے بہت
_________
Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment