Thursday, February 2, 2012

غزل : نظر کے آگے بچھا دو چاہے سمندروں سا، یہ خواب اپنا

غزل

نظر کے آگے بچھا دو چاہے سمندروں سا، یہ خواب اپنا
جو دیکھنا ہے وہ دیکھ لوگے، ہے زندگی کا عذاب اپنا

ہر ایک آہٹ پہ جوۓ شیریں کی، پیاس ٹپکے گی بوند بن کر
یہ کام آتا ہے زندگی بھر بچا کے رکھنا سراب اپنا

کسی کی خواہش کسی کے دل میں کسی کی خوشبو کسی بدن میں
ہر ایک نقش ِ دوئی کا حامل، نہیں ہے رکھتا جواب اپنا

بچا کے رکھو نہ جسم و جاں تم کہ خاک ہونا بھی طے شدہ ہے
لہو کی بوندوں سے مانگ لے گی، ہے حسرتوں کا حساب اپنا

نگاہِ شب میں چھپی ہوئی ہے وہ کہکشاں کی حسین دیوی
تمہارے خوابوں میں آ گئی تو اتار دے گی نقاب اپنا

دیار ِ مغرب کے رہنے والوں میں ایک رسم ِ وفا ہے ایسی
کہ ساتھ بیٹھو مگر خریدو شراب اپنی کباب اپنا

سمجھ لو صد کام کھل چکے ہیں نہنگِ مکرو فریب کے اب
گہر سے موج ِ رواں جو پوچھے کہاں لٹایا ہے آب اپنا
______________
Rashid Fazli

No comments:

Post a Comment