Saturday, February 4, 2012

غزل : بساطِ دل کا پیادہ سہی اٹھا نہ مجھے

غزل

بساطِ دل کا پیادہ سہی اٹھا نہ مجھے
کہ شہ پڑیگی تجھے زندگی ہٹانہ مجھے

جو اپنے کوئے ملامت سے لے کے آئے ہو
بنا رہے ہو اُسی سنگ کا نشانہ مجھے

میں چوم لیتا ہوں اب نکہتِ گلاب کو بھی
کہ مل گیا ہے تری سانس کا بہانہ مجھے

درون ِ دل ترے نازک سا ایک جذبہ ہے
سنبھال اُس کو ذرا، ٹھیس تو لگا نہ مجھے

متاع ِ درد جو تیری ہے اُس کو خاک نہ کر
میں جل رہا ہوں تیری آگ میں بجھا نہ مجھے

میں جی چکا ہوں تجھے عمر بھر کا داغ لیے
کہ سبز باغ نیا پھر سے تُو دکھا نہ مجھے

میں بن گیا ہوں ہر اک دور کی نئی آواز
کہ یاد رکھے کوئی دم نیا زمانہ مجھے

میں قطرہ قطرہ ترے دل کا خون ہوں شاید
میں گر پڑوں گا تری آنکھ سے رُلانہ مجھے

میں وہ نمو ہوں کہ دبنے سے پھر ابھرتی ہے
فلک کو چھو نہ لوں اٹھ کر کہیں دبانہ مجھے

تڑپ رہا ہوں ابھی تک جو میں نے جھیلا ہے
نہ سن سکوں گا تری داستاں سنانہ مجھے

جو اس کے درد سے ہٹ کر کہیں گزرتی ہے
اس ایک راہ پہ راشدٌ نہ کر روانہ مجھے
__________
Rashid Fazli

No comments:

Post a Comment