Monday, February 13, 2012

غزل : اُس کے آگے ہم غریبوں کی صدا کچھ بھی نہیں

غزل

اُس کے آگے ہم غریبوں کی صدا کچھ بھی نہیں
حال دل میں نے کہا اس نے سنا کچھ بھی نہیں

جسم میں اب زندگی کی ایک چنگاری نہیں
راکھ کے اس ڈھیر میں باقی بچا کچھ بھی نہیں

اپنی سانسوں کی حفاظت کر رہے ہیں لوگ سب
زندگی میں زندگی جیسا مزا کچھ بھی نہیں

مجرموں کے ہاتھ جب سے لگ گئی ہے منصفی!
چڑھ گئے سولی پہ وہ جن کی خطا کچھ بھی نہیں

نقشِ فریادی کی صورت سامنے اس کے گئے
فیصلہ اپنا مگر اس نے کیا کچھ بھی نہیں

ایک خوشبو ہے کہ جادو ہے خیالوں کا مرے،
ڈھونڈتا ہوں میں اسے جس کا پتا کچھ بھی نہیں

ہے تعلق ہی کہاں ان سے جو کچھ اپنی کہوں
کہہ رہے ہیں جو مجھے اچھا بُرا کچھ بھی نہیں
_______________

Rashid Fazli

No comments:

Post a Comment