غزل
بے حس گھروں کی چاہتیں دیوار و در سے ہیں
ہم آج اپنے گھر میں پڑے رہگزر سے ہیں
وہ لوگ جی رہے ہیں حقیقت میں زندگی
جو لوگ زندگی میں بہت مختصر سے ہیں
آنکھوں میں زندگی کی کثافت ہے، دھند ہے
جو دیکھتے ہیں آج بھی اہل ِ نظر سے ہیں
گہری جڑوں کو لے کے جو ہم ریگ میں اگے
اب آندھیوں کے بیچ کھڑے اک شجر سے ہیں
لہریں سمندروں کی یہ کہتی ہیں دوستو!
ہم اپنی قوت آج بھی اپنے سفر سے ہیں
بے حس گھروں کی چاہتیں دیوار و در سے ہیں
ہم آج اپنے گھر میں پڑے رہگزر سے ہیں
وہ لوگ جی رہے ہیں حقیقت میں زندگی
جو لوگ زندگی میں بہت مختصر سے ہیں
آنکھوں میں زندگی کی کثافت ہے، دھند ہے
جو دیکھتے ہیں آج بھی اہل ِ نظر سے ہیں
گہری جڑوں کو لے کے جو ہم ریگ میں اگے
اب آندھیوں کے بیچ کھڑے اک شجر سے ہیں
لہریں سمندروں کی یہ کہتی ہیں دوستو!
ہم اپنی قوت آج بھی اپنے سفر سے ہیں
____________
Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment