Showing posts with label Ghazal. Show all posts
Showing posts with label Ghazal. Show all posts

Wednesday, January 30, 2019

Ghazal : Phoolon Phoolon Mahkey Lekin Shabnam Shabnam Roye Toh

A Ghazal by Rashid Fazli

غزل

پھولوں پھولوں مہکے لیکن شبنم شبنم روۓ تو
کوئی کسی کی خاطر پہلے اپنے آپ کوکھوۓ تو

لوگ بہت تھے جب آئ تھی تنہائی کی کالی رات
اپنے آپ سے لپٹے لیکن گہری نیند بھی سوۓ تو

اوسر بنجر کھیتوں میں سب رنگ کی کھیتی اگتی ہے
ایک سنہرا خواب آنکھوں میں لاکر کوئی بوۓ تو

کن لوگوں کا دل پگھلا اور کن لوگوں پر آنچ آئ
دھوپ کے آنگن کے بچے سب خون کے آنسوروۓ تو

کیسے کیسے کھیل تماشے دنیا میں اب ہوتے ہیں
دیکھنے والا خون میں لیکن اپنی آنکھ ڈبوۓ تو

راشد فضلی


ग़ज़ल 


फूलों फूलों महके लेकिन शबनम शबनम रोये तो
कोई किसी की ख़ातिर पहले अपने आप को खोये तो 

लोग बहुत थे जब आई थी तनहाई की काली रात
अपने आप से लिपटे लेकिन गहरी नींद भी सोये तो 

ऊसर बंजर खेतों में सब रंग की खेती उगती है
एक सुनहरा ख़ाब आँखों में लाकर कोई बोये तो 

किन लोगों का दिल पिघला और किन लोगों पर आँच आई
धूप के आँगन के बच्चे सब ख़ून के आँसू रोये तो 

कैसे कैसे खेल तमाशे दुनिया में अब होते हैं
देखने वाला ख़ून में लेकिन अपनी आँख डुबोये तो 


राशिद फ़ज़ली
Ghazal by Rashid Fazli




Wednesday, January 2, 2019

Ghazal : Na Kisi Ke Khaab-o Khyaal Mey Na Kisi Ki Dast-e Dua Mey Hun

Ghazal by Rashid Fazli

غزل

نہ کسی کے خواب و خیال میں، نہ کسی کے دستِ دعا میں ہوں
مجھے مل چکی ہیں بشارتیں، میں متاعِ چاکِ قبا میں ہوں

مجھے دشت، دشت صدا نہ دو مجھے لہر لہر ہوا نہ دو
مرا شہر شہر پتہ نہ لو، میں کسی کے عہدِ وفا میں ہوں

مجھے لوٹتے ہیں یہ لوگ کیوں، میں کسی کا زادِ سفر نہیں
میں خیال ہوں کسی شعر کا کسی آرزوۓ بقا میں ہوں

مجھے شام شام نہ سوچنا، مجھے رات رات نہ جاگنا
وہ جو ایک چہرہٴ صبح ہے، میں اسی کی قیدِ ضیا میں ہوں

مجھے ڈال ڈال نہ دیکھنا، مجھے پات پات نہ ڈھونڈنا!
میں کلی کے کھلنے کا راز ہوں یوں نگاہِ باد صبا میں ہوں

مجھے آنکھ آنکھ نہ کھوجنا جہاں دردِ دل کا پتہ نہ ہو
وہ جو گرد سے ہیں اٹے ہوۓ انہیں آئینوں کی جلا میں ہوں

مجھے لوگ کہتے ہیں زندگی مجھے دیکھتا نہیں کوئی بھی
میں نظر نظر کا فریب ہوں مگر آئینوں کی ضیا میں ہوں

میں وہ خاموشی جو دلوں میں ہے، وہی بے کسی جو لبوں پہ ہے
نہ میں لفظ ہوں، نہ میں شعر ہیں، نہ کسی کی طرزِ ادا میں ہوں

جو شفق سے رنگ میں ہو کہیں، انہیں لب سے جاکے یہ پوچھنا
میں کسی کی گردِ جبیں میں ہوں یا کسی کے رنگِ حنا میں ہوں

کبھی پر لگا کے اڑا نہیں، میں ہوس کی کوئی صدا نہیں
مرا پاؤں بھی ہے زمین پر، مگر میں کہ جیسے ہوا میں ہوں

راشد فضلی








Thursday, August 25, 2016

Ghazal : Apne Aap Mey Pagal Rahna Jaise Ham Aur Tum

A Ghazal by Rashid Fazli

غزل

اپنے آپ میں پاگل رہنا، جیسے ہم اور تم
دیواروں کا اندھا رشتہ جیسے ہم اور تم

اپنے آپ کناروں کا احساس مٹاۓ کون
بیچ میں ہے اک بہتا دریا جیسے ہم اور تم

دوری، قربت دونوں کا دکھ لیکر جیتے ہیں
پیڑ تلے ہے پیڑ کا سایہ جیسے ہم اور تم

ہنس کر، رو کر ساتھ سفر میں چلتے رہنا ہے
آپس میں یوں ڈرتے رہنا جیسے ہم اور تم

اتنے دنوں کا ساتھ ہمارا، پھر کیوں لگتا ہے
سپنوں میں ان دیکھا سپنا جیسے ہم اور تم

درد کا رشتہ ایک ہے لیکن، کون سمجھتا ہے
دونوں میں ہے ایک اکیلا جیسے ہم اور تم

گھر بھی اپنا، تم بھی اپنے پھر بھی لگتا ہے!
زیست ہے اپنی جنس کا سودا جیسے ہم اور تم

راشد فضلی

____________________find Rashid Fazli on facebook____________________

ग़ज़ल

अपने आप में पागल रहना, जैसे मैं और तुम
दीवारों का अंधा रिश्ता जैसे मैं और तुम

अपने आप किनारों का एहसास मिटाये कौन
बीच में है एक बहता दरया जैसे मैं और तुम

हँस कर, रो कर साथ सफ़र में चलते रहना है
आपस में यूँ डरते रहना जैसे मैं और तुम

इतने दिनों का साथ हमारा, फिर क्यों लगता है
सपनों में अनदेखा सपना जैसे मैं और तुम

दर्द का रिश्ता एक है लेकिन, कौन समझता है
दोनों में है एक अकेला जैसे मैं और तुम

राशिद फ़ज़ली

A Ghazal by Rashid Fazli

Wednesday, July 6, 2016

Ghazal : Phoolon Phoolon Mahke Lekin Shabnam Shabnam Roye To

An Urdu Ghazal by Rashid Fazli
غزل

پھولوں پھولوں مہکے لیکن شبنم شبنم روۓ تو
کوئی کسی کی خاطر پہلے اپنے آپ کوکھوۓ تو

لوگ بہت تھے جب آئ تھی تنہائی کی کالی رات
اپنے آپ سے لپٹے لیکن گہری نیند بھی سوۓ تو

اوسر بنجر کھیتوں میں سب رنگ کی کھیتی اگتی ہے
ایک سنہرا خواب آنکھوں میں لاکر کوئی بوۓ تو

کن لوگوں کا دل پگھلا اور کن لوگوں پر آنچ آئ
دھوپ کے آنگن کے بچے سب خون کے آنسوروۓ تو

کیسے کیسے کھیل تماشے دنیا میں اب ہوتے ہیں
دیکھنے والا خون میں لیکن اپنی آنکھ ڈبوۓ تو

راشد فضلی

____________________find Rashid Fazli on facebook____________________

ग़ज़ल

फूलों फूलों महके लेकिन शबनम शबनम रोए तो
कोई किसी की ख़ातिर पहले अपने आप को खोए तो

लोग बहुत थे जब आई थी तनहाई की काली रात
अपने आप से लिपटे लेकिन गहरी नींद भी सोए तो

ऊसर बंजर खेतों में सब रंग की खेती उगती है
एक सुनहरा ख़ाब आँखों में लाकर कोई बोए तो

किन लोगों का दिल पिघला और किन लोगों पर आँच आई
धूप के आँगन के बच्चे सब ख़ून के आँसू रोए तो

कैसे कैसे खेल तमाशे दुनिया में अब होते हैं
देखने वाला ख़ून में लेकिन अपनी आँख डुबोए तो

राशिद फ़ज़ली

An Urdu Ghazal by Rashid Fazli

Thursday, March 12, 2015

غزل : روز ہی گھٹتا بڑھتا ہے

غزل 

روز ہی گھٹتا بڑھتا ہے
دل میں دکھ کا دریا ہے
 
تیرے عشق کا پاگل پن!
دیواروں پر لٹکا ہے
 
میں بھی برگِ آوارہ 
تو بھی ہوا کا جھونکا ہے
 
تشنہ لب اب کیا مانگیں
دریا بھی تو پیاسا ہے
 
رنگ سُنہرا، یادوں کا
  ایک طلسمی دھوکہ ہے
 
جاگنے والی آنکھوں کا
دکھ بھی پتھر جیسا ہے
 
خوش وہ نہیں ہے اندر سے
مجھ میں جو بھی رہتا ہے
 
تیز ہوا کی زد پر ہے
ریت پہ جو کچھ لکھا ہے
 
میری قسمت میں شاید
اپنا ہی اِک سایہ ہے
 
ان آنکھوں کے سائے میں
کوئی ابھی تک جلتا ہے
 
راشدٌ جانے راتوں سے
کیا کچھ کہتا رہتا ہے
 
راشد فضلی
______________________________

Rashid Fazli Urdu Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

ग़ज़ल
 
रोज़ ही घटता बढ़ता है
दिल में दुख का दरिया है
 
मैं भी बर्गे आवारा
तू भी हवा का झोंका है
 
ख़ुश वह नहीं है अंदर से
मुझ में जो भी रहता है
 
तेज़ हवा की ज़द पर है
रेत पे जो कुछ लिखा है
 
मेरी क़िस्मत में शायद
अपना ही इक साया है
 
राशिद जाने रातों से
क्या कुछ कहता रहता है
 
राशिद फ़ज़ली
___________

उर्दू शायरी - राशिद फ़ज़ली
ग़ज़ल - राशिद फ़ज़ली
 

Saturday, January 10, 2015

غزل : جو حوصلہ نہیں رہا تو ہجرتوں سے ڈر گیا

غزل

جو حوصلہ نہیں رہا تو ہجرتوں سے ڈر گیا
قدم قدم جو رک گیا وہ راستے میں مر گیا

عجیب آدمی تھا وہ تمام عمر کاٹ کر
مسافتوں کے درد سے چُھٹا تو اپنے گھر گیا

فقط حنا کے رنگ کا خیال دل میں آنا تھا
وہ آئینے کے سامنے کچھ اور بھی نکھر گیا

عروج کی یہ آگہی کسے کہاں لبھا گئی
پہاڑ پر جو شخص تھا زمین پر اتر گیا

جو اپنے جسم و جان کو خیال کو سمیٹ کر
ہوا کے ساتھ لے اڑا تو خاک سا بکھر گیا

ہر ایک ذات کے لئے مسافرت تھی آئینہ!
جو آنکھ سے نظر گئی تو پاؤں سے سفر گیا

عجب ہے دل کا کھیل بھی جو چپ رہو تو کچھ نہیں
زبان کھول دی اگر تو اس کا سب اثر گیا

راشد فضلی
____________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

ग़ज़ल

जो हौसला नहीं रहा तो हिजरतों से डर गया
क़दम क़दम जो रुक गया वह रास्ते में मर गया

फ़क़त हिना के रंग का ख़्याल दिल में आना था
वह आईने के सामने कुछ और भी निखर गया

हर एक ज़ात के लिये मुसाफ़िरत थी आईना!
जो आँख से नज़र गई तो पाँव से सफ़र गया

अजब है दिल का खेल भी जो चुप रहो तो कुछ नहीं
ज़बान खोल दी अगर तो उसका सब असर गया
 
राशिद फ़ज़ली
_________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Tuesday, December 2, 2014

غزل : اِسی اک بات کا مجھ پر نشہ ہے

غزل

اِسی اک بات کا مجھ پر نشہ ہے
مرے خوابوں میں کوئی جاگتا ہے

مرے بیتے دنوں کی یاد لے کر
چلے آؤ کہ دروازہ کھلا ہے

میں اب ہر اجنبی کو جانتا ہوں!
کہ شہرِ جاں میں ہر چہرہ نیا ہے

ہر اک ہجرت کدے کی ہے علامت
وہی اک شخص جو تنہا کھڑا ہے

زباں کا ذائقہ اپنا لہو ہے
سمندر اپنا پانی پی رہا ہے

میں وہ ہوں جو تمہیں دِکھتا نہیں ہوں
مرے اندر تو کوئی دوسرا ہے

بصارت اپنی آنکھوں سے ہٹا لو،
کہ جو دیکھوگے وہ دیکھا ہوا ہے

یہاں شیشے کے دل ڈھلنے لگے ہیں
حقیقت جس کی پتھر جانتا ہے

راشد فضلی
_________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Thursday, November 13, 2014

غزل : کبھی زندگی جو عذاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

غزل

کبھی زندگی جو عذاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کوئی ٹوٹتا ہوا خواب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

یہ تمہارے ہونٹوں کی تشنگی، کبھی سیل ِ خوں میں سفر کرے
جو نظر کے آگے سراب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

کبھی اپنے قرضۂ جان کا، کبھی زخم ہاۓ گداز کا
تمہیں دینا کوئی حساب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

یوں خلا میں گھورتے گھورتے کوئی لمحہ ایسا ٹھہر پڑے
کہ سوال ہو نہ جواب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

وہی تازگی ہے درون ِ دل، مرا زخم ناب کھلا ہوا
تمہیں دیکھنا جو گلاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

کسی دل گرفتہ خیال سے جو تمہاری آنکھیں امنڈ پڑیں
کوئی موج ِ خوں تہۂِ آب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

بڑی بے ثبات ہے زندگی کسی موج ِ آب کے زور پر
کہیں تیرتا جو حُباب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

کسی آس پر کٹے زندگی، کبھی آسماں پہ نظر اٹھے
تو دعا سے تم کو حجاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

مرے بخت کی یہ نوشت بھی ہے سیاہیوں سے لکھی ہوئی
جو تمہارے آگے کتاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

راشد فضلی
_______________________

Urdu Poetry by Rashid Fazli
A Ghazal by Rashid Fazli

Tuesday, August 14, 2012

غزل : وہی تیز و تند ہوا کا رخ، مری جاں کے پیچھے لگا ہوا

وہی تیز و تند ہوا کا رخ، مری جاں کے پیچھے لگا ہوا
جسے سطح ِ آب پہ چھوڑ کر میں سکوتِ بحر ِ بلا ہوا

یہ عجیب خواہش جست تھی کہ کہیں مقام نہ مل سکا
نہ زمیں پہ اپنے قدم رکے نہ ہوا سے میرا بھلا ہوا

وہی روز و شب کی مسافتیں کسی جستجو کسی درد کی
وہی پھیلتے ہوئے راستے، یہی پاؤں میرا تھکا ہوا

جو قریب ہے وہی زندگی جو بعید ہے وہ خیال ہے
تو قریب آ مری آرزو مری جاں کا در ہے کھلا ہوا

جو محال ہے وہ کمال ہے جو کمال ہے وہ مثال ہے
میں عروج ِ فن کی تلاش میں رہا حسرتوں سے جڑا ہوا

اِسی انتظار کی راہ پر وہ ہجوم ِ شوق گزر گیا
تجھے دیکھتا کوئی رہ گیا ترے راستے پہ کھڑا ہوا

اِسی مستعار سے نام میں یہ وجود میرا دبا رہا
میں شعور ِ ذات لئے ہوئے پس ِ آئینہ تھا پڑا ہوا
______________
Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Monday, July 30, 2012

غزل : ہر جہت آنکھ کی تیرگی اور میں

ہر جہت آنکھ کی تیرگی اور میں
بے ہُنر زندگی، بے کسی اور میں

دلربا پھول کی اک مہک اور تو
درد کی اک کھلی چاندنی اور میں

آنکھ میں دور تک درد کا رتجگا!
بے سبب رات کی خامشی اور میں

آس کی سیج پر موسموں کی دھنک
روزوشب درد کی رُت نئی اور میں

حوصلہ بے نمو، بے شرر خواہشیں
بے محل اک زمیں گھاس کی اور میں

بے ہوا بے مکاں، جسم کا سائباں
بے بدن ذات کی آگہی اور میں

بے جھجک آنکھ کی دور سے گفتگو
بے قبا حسن کی سادگی اور میں

بے ثمر ٹہنیاں آس کی، خواب کی
بے نوا شام کی راگنی اور میں

بے سماں آئینے دھند کی صورتیں!
بے زباں آنکھ کی روشنی اور میں
______________
 
Rashid Fazli Poetry
Ghazal by Rashid Fazli
 

Friday, July 27, 2012

غزل : شورش دو جہان سے نکلا

شورش ِ دو جہان سے نکلا
جب دھواں میری جان سے نکلا

تو بھی کچھ مجھ سے بدگمان رہا
میں بھی تیرے گمان سے نکلا

کوئی ٹوٹا، گلی میں شور ہوا
میں بھی اپنے مکان سے نکلا

خوبصورت سی ایک آہٹ پر
جوگی اپنے دھیان سے نکلا

ڈوبنے کی ہوس کسے تھی یہاں
پانی اونچا نشان سے نکلا

اپنی چاہت خرید کر اک شخص!
بے حسی کی دکان سے نکلا
_____________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Thursday, May 17, 2012

غزل : جب ہوا اس کو چھو کے آتی ہے

جب ہوا اس کو چھو کے آتی ہے
مجھ سے اپنا بدن چراتی ہے

اپنی ہجرت کی ایک تنہا شام
کتنے موسم ہمیں دکھاتی ہے

آنکھیں اپنی بچھا دو آہٹ پر
روشنی کب کسے بلاتی ہے

جب بھی سورج نظر میں چڑھتا ہے
رات آنکھوں میں ٹوٹ جاتی ہے

جتنے منظر ہیں میری آنکھوں میں
ہر طرف اتنی بے ثباتی ہے

بھولتا جا رہا ہوں سانسوں کو
زندگی یوں ہی جھلملاتی ہے
_________
 
Rashid Fazli Poetry
 

Tuesday, May 15, 2012

غزل : ہیں جلتے مناظر ہوا سرد ہے

ہیں جلتے مناظر ہوا سرد ہے
ان آنکھوں کا جلتا دیا سرد ہے

لحافوں کی گرمی سے کیا جاۓ گی
یہاں اندرونی فضا سرد ہے

یہی سوچ کر ہم نہیں مانگتے!
ہمارا یہ دست دعا سرد ہے

محبت کے وعدوں کا جلتا دیا
یہ چپکے سے کس نے کہا سرد ہے

جسے آج تک چھو کے دیکھا نہیں
یہ کیسے کہو گے خدا سرد ہے

نہ اٹھے گا جوش ِ روانی کبھی
لہو کا یہ دریا بڑا سرد ہے

نگاہیں بھی سبزہ اگانے لگیں
خوشی کی برستی گھٹا سرد ہے

کوئی زمزمہ ہو، کوئی بزم ہو!
یہ راشدٌ ہمیشہ رہا سرد ہے
____________
 
Rashid Fazli Poetry
 

Monday, May 14, 2012

غزل : اشک فرقت ہیں بچالو ہم کو

اشک فرقت ہیں بچالو ہم کو
یوں نہ آنکھوں سے نکالو ہم کو

تپتے صحرا کے کھلے پھول ہیں ہم
لاکے کمرے میں سجالو ہم کو

ہمیں فرقت میں ہیں یادوں کے دئیے
شام ہوتے ہی جلالو ہم کو

صحرا صحرا، ہیں تمھاری آنکھیں!
ہم کہ دریا ہیں بہالو ہم کو

چاند تاروں کے بسانے والو!
اجڑی بستی ہیں بسالو ہم کو

اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی طرح
اپنی پلکوں پہ چھپالو ہم کو
_________
 
Rashid Fazli Poetry
 
 

Saturday, May 12, 2012

غزل : یاد نہیں خیال بھی کس کے خیال میں ہو گم

یاد نہیں خیال بھی کس کے خیال میں ہو گم
سارے جہاں کو چھوڑ کر اپنے وصال میں ہو گم

عرصۂِ شب تو چن لیا دشتِ سفر دراز میں
اب تو کرو یہی دعا پاؤں زوال میں ہو گم

آنکھوں کو بند کر لیا ایسے تو تم کبھی نہ تھے
آئینے پائمال ہیں کس کے جمال میں ہو گم

ساری رفاقتیں تجیں میں نے تمہارے نام پر
ایک کہ تم ابھی تلک شہر ِ ملال میں ہو گم

راشدٌ ہر ایک آرزو دام ِ فریبِ زیست ہے
اصل ِ حیات چھوڑ کر حسن ِ خیال میں ہو گم
______________

Rashid Fazli Poetry
 

Tuesday, May 1, 2012

غزل : سنہرے پروں کا پرندہ اُڑا

سنہرے پروں کا پرندہ اُڑا
کسی پہ بھی جادو نہ اس کا چلا

نصیب اپنے ہاتھوں سے جس نے لکھا
وہ روشن خیالی سے کیوں مر گیا

جو تتلی کے رنگوں سے مسحور تھا
وہی وقت کی ڈور پکڑے رہا

کسے اپنے اوپر یقین اتنا تھا
یہ کون اپنے ہاتھوں کھلونا بنا

جہاں روشنی کا مقدر نہ تھا
جلایا وہاں پہ یہ کس نے دیا

ابھی تو بکھرنے میں کچھ دیر تھی
کسے لے کے چل دی یہ چلتی ہوا

دھنک آرزوؤں کا سنگم رہی
مگر دل تھا اپنا بُجھا کا بُجھا
____________
 
Rashid Fazli Poetry

Monday, April 30, 2012

غزل : اس کے آگے میرا ہنر کم ہے

اس کے آگے میرا ہنر کم ہے
خون ِ دل کا گہر گہر کم ہے

جل رہے ہیں چراغ الفت کے
روشنی ہے مگر نظر کم ہے

میری قسمت میں ہجرتیں اتنی
زندگی بھر کا یہ سفر کم ہے

اس قدر تیرگی ہے آنکھوں میں
روشنی کے لئے سحر کم ہے

اُس مسافر کا یہ بہانہ ہے
میری آنکھوں کی رہگزر کم ہے

ہے بڑی کائناتِ ارض و سما
خواہشوں کے لئے مگر کم ہے

مر گیا کوئی اس کی چاہت میں
سانحے کی اُسے خبر کم ہے

لب پہ الفاظ ہیں محبت کے
دل میں جذبات کا شرر کم ہے

اڑ رہا ہے ہواؤں میں راشدٌ
جرائتِ بال و پر مگر کم ہے
___________

Rashid Fazli Poetry

Wednesday, April 4, 2012

غزل : ایک سناٹا سا ہے پھیلا ہوا

ایک سناٹا سا ہے پھیلا ہوا
آج دل بھی درد کا صحرا ہوا

اک دھواں سا تھا خیالوں میں مرے
آئینے میں آکے جو چہرا ہوا

عام سی اک چیز ہو بازار میں
میرا بھی کچھ اس طرح سودا ہوا

آندھیوں کے بیچ میری کیا بساط
ایک پتا شاخ پر سہما ہوا

کیا ہوا جو تیری آنکھوں سے گرا
میں کہ قطرہ تھا مگر دریا ہوا

کیا قیامت ہے کہ دیکھوں رات دن
اک سمندر پیاس کا پھیلا ہوا

وہ مرا تھا، اشک بن کر گر گیا
آج میں تنہا ہوا، تنہا ہوا

اک فرشتہ آسماں سے گر پڑے
یوں زمیں پہ آ کے میں رسوا ہوا

بوڑھی آنکھوں میں کہانی زیست کی
ایک لمحہ جیسے ہو ٹھہرا ہوا

پڑھ رہا تھا ہاتھ کی سیدھی لکیر
زندگی میں جو ہوا الٹا ہوا

سب کے ماتھے پر ہیں راشدٌ سلوٹیں
سارے چہروں پر ہوں میں لکھا ہوا
___________
 
Ghazal by Rashid Fazli