شورش ِ دو
جہان سے نکلا
جب دھواں
میری جان سے نکلا
تو بھی کچھ
مجھ سے بدگمان رہا
میں بھی تیرے
گمان سے نکلا
کوئی ٹوٹا،
گلی میں شور ہوا
میں بھی اپنے
مکان سے نکلا
خوبصورت سی
ایک آہٹ پر
جوگی اپنے
دھیان سے نکلا
ڈوبنے کی ہوس
کسے تھی یہاں
پانی اونچا
نشان سے نکلا
اپنی چاہت
خرید کر اک شخص!
بے حسی کی
دکان سے نکلا
_____________
No comments:
Post a Comment