میں اپنے حرف اول سے ہی تجھ کو : بیاض دل پہ لکھتا آ رہا ہوں :: خواب آنکھیں
Khwaab Aankhen
Mohammad Yahya Farooqui
Showing posts with label Urdu Poetry. Show all posts
Showing posts with label Urdu Poetry. Show all posts
Friday, February 22, 2019
Sher : Ab Lao Kisi Dhoop Ko Le Ja Ke Leta Do
Wednesday, January 2, 2019
Ghazal : Na Kisi Ke Khaab-o Khyaal Mey Na Kisi Ki Dast-e Dua Mey Hun
![]() |
Ghazal by Rashid Fazli |
غزل
نہ کسی کے خواب و خیال میں، نہ کسی کے دستِ دعا میں ہوں
مجھے مل چکی ہیں بشارتیں، میں متاعِ چاکِ قبا میں ہوں
مجھے مل چکی ہیں بشارتیں، میں متاعِ چاکِ قبا میں ہوں
مجھے دشت، دشت صدا نہ دو مجھے لہر لہر ہوا نہ دو
مرا شہر شہر پتہ نہ لو، میں کسی کے عہدِ وفا میں ہوں
مرا شہر شہر پتہ نہ لو، میں کسی کے عہدِ وفا میں ہوں
مجھے لوٹتے ہیں یہ لوگ کیوں، میں کسی کا زادِ سفر نہیں
میں خیال ہوں کسی شعر کا کسی آرزوۓ بقا میں ہوں
میں خیال ہوں کسی شعر کا کسی آرزوۓ بقا میں ہوں
مجھے شام شام نہ سوچنا، مجھے رات رات نہ جاگنا
وہ جو ایک چہرہٴ صبح ہے، میں اسی کی قیدِ ضیا میں ہوں
وہ جو ایک چہرہٴ صبح ہے، میں اسی کی قیدِ ضیا میں ہوں
مجھے ڈال ڈال نہ دیکھنا، مجھے پات پات نہ ڈھونڈنا!
میں کلی کے کھلنے کا راز ہوں یوں نگاہِ باد صبا میں ہوں
میں کلی کے کھلنے کا راز ہوں یوں نگاہِ باد صبا میں ہوں
مجھے آنکھ آنکھ نہ کھوجنا جہاں دردِ دل کا پتہ نہ ہو
وہ جو گرد سے ہیں اٹے ہوۓ انہیں آئینوں کی جلا میں ہوں
وہ جو گرد سے ہیں اٹے ہوۓ انہیں آئینوں کی جلا میں ہوں
مجھے لوگ کہتے ہیں زندگی مجھے دیکھتا نہیں کوئی بھی
میں نظر نظر کا فریب ہوں مگر آئینوں کی ضیا میں ہوں
میں نظر نظر کا فریب ہوں مگر آئینوں کی ضیا میں ہوں
میں وہ خاموشی جو دلوں میں ہے، وہی بے کسی جو لبوں پہ ہے
نہ میں لفظ ہوں، نہ میں شعر ہیں، نہ کسی کی طرزِ ادا میں ہوں
نہ میں لفظ ہوں، نہ میں شعر ہیں، نہ کسی کی طرزِ ادا میں ہوں
جو شفق سے رنگ میں ہو کہیں، انہیں لب سے جاکے یہ پوچھنا
میں کسی کی گردِ جبیں میں ہوں یا کسی کے رنگِ حنا میں ہوں
میں کسی کی گردِ جبیں میں ہوں یا کسی کے رنگِ حنا میں ہوں
کبھی پر لگا کے اڑا نہیں، میں ہوس کی کوئی صدا نہیں
مرا پاؤں بھی ہے زمین پر، مگر میں کہ جیسے ہوا میں ہوں
مرا پاؤں بھی ہے زمین پر، مگر میں کہ جیسے ہوا میں ہوں
راشد فضلی
Wednesday, July 6, 2016
Ghazal : Phoolon Phoolon Mahke Lekin Shabnam Shabnam Roye To
![]() |
An Urdu Ghazal by Rashid Fazli |
غزل
پھولوں پھولوں مہکے لیکن شبنم شبنم روۓ تو
کوئی کسی کی خاطر پہلے اپنے آپ کوکھوۓ تو
لوگ بہت تھے جب آئ تھی تنہائی کی کالی رات
اپنے آپ سے لپٹے لیکن گہری نیند بھی سوۓ تو
اوسر بنجر کھیتوں میں سب رنگ کی کھیتی اگتی ہے
ایک سنہرا خواب آنکھوں میں لاکر کوئی بوۓ تو
کن لوگوں کا دل پگھلا اور کن لوگوں پر آنچ آئ
دھوپ کے آنگن کے بچے سب خون کے آنسوروۓ تو
کیسے کیسے کھیل تماشے دنیا میں اب ہوتے ہیں
دیکھنے والا خون میں لیکن اپنی آنکھ ڈبوۓ تو
راشد فضلی
پھولوں پھولوں مہکے لیکن شبنم شبنم روۓ تو
کوئی کسی کی خاطر پہلے اپنے آپ کوکھوۓ تو
لوگ بہت تھے جب آئ تھی تنہائی کی کالی رات
اپنے آپ سے لپٹے لیکن گہری نیند بھی سوۓ تو
اوسر بنجر کھیتوں میں سب رنگ کی کھیتی اگتی ہے
ایک سنہرا خواب آنکھوں میں لاکر کوئی بوۓ تو
کن لوگوں کا دل پگھلا اور کن لوگوں پر آنچ آئ
دھوپ کے آنگن کے بچے سب خون کے آنسوروۓ تو
کیسے کیسے کھیل تماشے دنیا میں اب ہوتے ہیں
دیکھنے والا خون میں لیکن اپنی آنکھ ڈبوۓ تو
راشد فضلی
____________________find Rashid Fazli on facebook____________________
ग़ज़ल
फूलों फूलों महके लेकिन शबनम शबनम रोए तो
कोई किसी की ख़ातिर पहले अपने आप को खोए तो
लोग बहुत थे जब आई थी तनहाई की काली रात
अपने आप से लिपटे लेकिन गहरी नींद भी सोए तो
ऊसर बंजर खेतों में सब रंग की खेती उगती है
एक सुनहरा ख़ाब आँखों में लाकर कोई बोए तो
किन लोगों का दिल पिघला और किन लोगों पर आँच आई
धूप के आँगन के बच्चे सब ख़ून के आँसू रोए तो
कैसे कैसे खेल तमाशे दुनिया में अब होते हैं
देखने वाला ख़ून में लेकिन अपनी आँख डुबोए तो
राशिद फ़ज़ली
फूलों फूलों महके लेकिन शबनम शबनम रोए तो
कोई किसी की ख़ातिर पहले अपने आप को खोए तो
लोग बहुत थे जब आई थी तनहाई की काली रात
अपने आप से लिपटे लेकिन गहरी नींद भी सोए तो
ऊसर बंजर खेतों में सब रंग की खेती उगती है
एक सुनहरा ख़ाब आँखों में लाकर कोई बोए तो
किन लोगों का दिल पिघला और किन लोगों पर आँच आई
धूप के आँगन के बच्चे सब ख़ून के आँसू रोए तो
कैसे कैसे खेल तमाशे दुनिया में अब होते हैं
देखने वाला ख़ून में लेकिन अपनी आँख डुबोए तो
राशिद फ़ज़ली
![]() |
An Urdu Ghazal by Rashid Fazli |
Saturday, January 10, 2015
غزل : جو حوصلہ نہیں رہا تو ہجرتوں سے ڈر گیا
غزل
جو حوصلہ نہیں رہا تو ہجرتوں سے ڈر گیا
قدم قدم جو رک گیا وہ راستے میں مر گیا
عجیب آدمی تھا وہ تمام عمر کاٹ کر
مسافتوں کے درد سے چُھٹا تو اپنے گھر گیا
فقط حنا کے رنگ کا خیال دل میں آنا تھا
وہ آئینے کے سامنے کچھ اور بھی نکھر گیا
عروج کی یہ آگہی کسے کہاں لبھا گئی
پہاڑ پر جو شخص تھا زمین پر اتر گیا
جو اپنے جسم و جان کو خیال کو سمیٹ کر
ہوا کے ساتھ لے اڑا تو خاک سا بکھر گیا
ہر ایک ذات کے لئے مسافرت تھی آئینہ!
جو آنکھ سے نظر گئی تو پاؤں سے سفر گیا
عجب ہے دل کا کھیل بھی جو چپ رہو تو کچھ نہیں
زبان کھول دی اگر تو اس کا سب اثر گیا
راشد فضلی
جو حوصلہ نہیں رہا تو ہجرتوں سے ڈر گیا
قدم قدم جو رک گیا وہ راستے میں مر گیا
عجیب آدمی تھا وہ تمام عمر کاٹ کر
مسافتوں کے درد سے چُھٹا تو اپنے گھر گیا
فقط حنا کے رنگ کا خیال دل میں آنا تھا
وہ آئینے کے سامنے کچھ اور بھی نکھر گیا
عروج کی یہ آگہی کسے کہاں لبھا گئی
پہاڑ پر جو شخص تھا زمین پر اتر گیا
جو اپنے جسم و جان کو خیال کو سمیٹ کر
ہوا کے ساتھ لے اڑا تو خاک سا بکھر گیا
ہر ایک ذات کے لئے مسافرت تھی آئینہ!
جو آنکھ سے نظر گئی تو پاؤں سے سفر گیا
عجب ہے دل کا کھیل بھی جو چپ رہو تو کچھ نہیں
زبان کھول دی اگر تو اس کا سب اثر گیا
راشد فضلی
____________________________
![]() |
A Ghazal by Rashid Fazli |
ग़ज़ल
जो हौसला नहीं रहा तो हिजरतों से डर गया
क़दम क़दम जो रुक गया वह रास्ते में मर गया
फ़क़त हिना के रंग का ख़्याल दिल में आना था
वह आईने के सामने कुछ और भी निखर गया
हर एक ज़ात के लिये मुसाफ़िरत थी आईना!
जो आँख से नज़र गई तो पाँव से सफ़र गया
अजब है दिल का खेल भी जो चुप रहो तो कुछ नहीं
ज़बान खोल दी अगर तो उसका सब असर गया
जो हौसला नहीं रहा तो हिजरतों से डर गया
क़दम क़दम जो रुक गया वह रास्ते में मर गया
फ़क़त हिना के रंग का ख़्याल दिल में आना था
वह आईने के सामने कुछ और भी निखर गया
हर एक ज़ात के लिये मुसाफ़िरत थी आईना!
जो आँख से नज़र गई तो पाँव से सफ़र गया
अजब है दिल का खेल भी जो चुप रहो तो कुछ नहीं
ज़बान खोल दी अगर तो उसका सब असर गया
राशिद फ़ज़ली
_________________________
![]() |
A Ghazal by Rashid Fazli |
Tuesday, December 2, 2014
غزل : اِسی اک بات کا مجھ پر نشہ ہے
غزل
اِسی اک بات کا مجھ پر نشہ ہے
مرے خوابوں میں کوئی جاگتا ہے
مرے بیتے دنوں کی یاد لے کر
چلے آؤ کہ دروازہ کھلا ہے
میں اب ہر اجنبی کو جانتا ہوں!
کہ شہرِ جاں میں ہر چہرہ نیا ہے
ہر اک ہجرت کدے کی ہے علامت
وہی اک شخص جو تنہا کھڑا ہے
زباں کا ذائقہ اپنا لہو ہے
سمندر اپنا پانی پی رہا ہے
میں وہ ہوں جو تمہیں دِکھتا نہیں ہوں
مرے اندر تو کوئی دوسرا ہے
بصارت اپنی آنکھوں سے ہٹا لو،
کہ جو دیکھوگے وہ دیکھا ہوا ہے
یہاں شیشے کے دل ڈھلنے لگے ہیں
حقیقت جس کی پتھر جانتا ہے
راشد فضلی
اِسی اک بات کا مجھ پر نشہ ہے
مرے خوابوں میں کوئی جاگتا ہے
مرے بیتے دنوں کی یاد لے کر
چلے آؤ کہ دروازہ کھلا ہے
میں اب ہر اجنبی کو جانتا ہوں!
کہ شہرِ جاں میں ہر چہرہ نیا ہے
ہر اک ہجرت کدے کی ہے علامت
وہی اک شخص جو تنہا کھڑا ہے
زباں کا ذائقہ اپنا لہو ہے
سمندر اپنا پانی پی رہا ہے
میں وہ ہوں جو تمہیں دِکھتا نہیں ہوں
مرے اندر تو کوئی دوسرا ہے
بصارت اپنی آنکھوں سے ہٹا لو،
کہ جو دیکھوگے وہ دیکھا ہوا ہے
یہاں شیشے کے دل ڈھلنے لگے ہیں
حقیقت جس کی پتھر جانتا ہے
راشد فضلی
_________________________
Labels:
Ghazal,
Ghazal by Rashid Fazli,
Mohammad Yahya Farooqui,
Poetry by Rashid Fazli,
Urdu Poetry
Monday, September 10, 2012
نظم : سازِ زندگی
ساز کے تار تو ٹوٹے ہوئے مدت
گزری
پھر بھی اک لَے مری تخئیل میں
لہراتی ہے
گل اگر سوکھ بھی جاۓ تو یہ
نکہت اس کی
مدتوں حافظہ و یاد کو مہکاتی
ہے
گل بکھرتا ہے تو بکھرے ہوئے
برگِ گل سے
بستر حسن کو رہ رہ کے سجاتا
ہوں میں
اور یادوں سے تری، تیرے چلے
جانے پر
خود محبت کو تھپکتا ہوں سُلاتا ہوں میں
_________________
![]() |
A Nazm by Rashid Fazli |
ترجمہ Music When Soft Voice Die, by P.B. Shelly
Labels:
Mohammad Yahya Farooqui,
Nazm,
Poetry by Rashid Fazli,
Rashid Fazli,
Shelly,
Translation,
Urdu Poetry
Saturday, September 8, 2012
نظم : وقت
Labels:
Mohammad Yahya Farooqui,
Nazm,
Poetry by Rashid Fazli,
Time,
Urdu Poetry,
Waqt
Friday, September 7, 2012
Thursday, September 6, 2012
Wednesday, September 5, 2012
نظم : قرض
تجھ پہ میری چاہت کا
ایک ہی تو قرضہ ہے……
تجھ کو مجھ سے ملنا ہے!
__________________
![]() |
Qarz, A Nazm by Rashid Fazli |
model in image - Rana, image used with permission
Tuesday, September 4, 2012
نظم : خوف
کڑی دھوپ کا یہ تقاضا ہے چلتے
رہو
اپنے ساۓ سے ڈرتے رہو،
اندھیرے کی جھولی کھنگالو تو
تم کو
پتہ یہ چلے گا
کہ کھائی دھویں کی، بہت دور
تمہاری اِن آنکھوں کے ہر نور
کی منتظر ہے
کڑی دھوپ کا یہ تقاضا ہے چلتے
رہو
ان اندھیروں سے ڈرتے رہو
جو تمہارے ہی سینے میں بیٹھے
ہوئے ہیں!!
__________________
Monday, September 3, 2012
نظم : ناتواں
شعاعیں اندھیروں کی بستی میں
گم ہیں
اِن آنکھوں سے کہہ دو نہ
دیکھیں وہ سب کچھ
جنہیں اپنے ناخُن پہ ھم نے
سجایا
وہ اجداد کا قرض
ادا کرنا جس کو، وطیرہ بنایا
صعوبت میں سانسوں کا قرضہ
چکایا
اندھیروں کی یلغار بڑھنے لگی
ہے
کسی سمت دیکھوں
اب آنکھوں میں کوئی کرن ایسی
باقی نہیں ہے
جو جاکر،
اندھیروں کے اس دودھیا جال کو
کاٹ کر پھینک دے،
ہو ممکن تو آنکھوں کی ساری
شعاعیں
کہیں اپنی پتلی میں محفوظ رکھو
قیامت کے دن اپنے اجداد کو
جاکے واپس کرو
قرض ِ دنیا نہ دے پاؤ تو
قرض ِ عقبیٰ تو دو!!
_____________
![]() |
A Nazm by Rashid Fazli |
Monday, August 27, 2012
غزل : رنگ بدلتے جاؤ منظر خود بدلتے جائیں گے
رنگ بدلتے
جاؤ منظر خود ہی بدلتے جائیں گے
آتی رُت میں
جاتی رُت کے جذبے پگھلتے جائیں گے
آج سنپیرے جادوگر
کچھ ایسے بھی مل جائیں گے
سانپ نگلتے
جائیں گے جو زہر اُگلتے جائیں گے
سپنے نئے
جگاتے جاؤ، جھوٹی آس دلاتے جاؤ
ہم خوابوں پر
جینے والے یوں بھی بہلتے جائیں گے
خون جلا ہے
جن کے دل کا، آنسو اُن کے لفظ بنے
آبِ رواں پر
لکھنے والے خود بھی پگھلتے جائیں گے
رنگ برنگی
تتلی جیسی لاکھوں خواہش دنیا کی
اِس دنیا سے
جانے والے ہاتھ ہی ملتے جائیں گے
شوق ِ سفر
میں گھا ٹا کیسا، جادے کی زنجیر کہاں
ہم رُک جائیں
گے تو ہمارے رستے چلتے جائیں گے
اپنی سوچیں
ساری ہم تو، کل پرزوں کو سونپ چکے
تصویروں میں
کاغذ کی ہم آج سے ڈھلتے جائیں گے
دشتِ سفر میں
آبلے سارے خون کے آنسو روئیں گے
چلتے رہو تو تلووں کے سب خار نکلتے جائیں گے
Tuesday, August 21, 2012
غزل : پیروں تلے زمیں نہیں اک آسماں تو ہے
پیروں تلے
زمیں نہیں اک آسماں تو ہے
میرا جو کوئی
گھر نہیں تیرا جہاں تو ہے
یہ زندگی
اجاڑ سا صحرا سہی مگر
کوئی خیال و
خواب میں میرے نہاں تو ہے
لغزش ہزار
میرے قدم سے لپٹ گئی
پر اک قدم پہ
تیرا ہی کون و مکاں تو ہے
پندار اپنا
لے کے جیا اور مر گیا
تو جو نہیں
جہاں میں تری داستاں تو ہے
میں نے تجھے
بنا دیا اپنی غزل کی روح
تو دیکھ اس
میں میرے لہو کا نشاں تو ہے
کچھ یہ کشید
کم نہیں اب زیست کے لیے
ہجرت کا درد
خون میں میرے رواں تو ہے
راشدٌ بھلائی
کر کے تُو دریا میں ڈال دے
اس کا صلا یہاں نہیں لیکن وہاں تو ہے
_____________
click the image to enlarge
![]() |
A Ghazal by Rashid Fazli |
Sunday, August 19, 2012
غزل : کھلونا ہوں ترا لیکن یہ حد ہے
کوئی آنکھوں
میں میری جاگتا ہے
مرے خوابوں
میں اکثر بولتا ہے
کسی دہلیز کی
میں آرزو ہوں
مجھے آنکھوں
سے کوئی سوچتا ہے
اسی اک شخص
سے کترا رہا ہوں
مجھے جو میرے
اندر دیکھتا ہے
کھلونا ہوں
ترا لیکن یہ حد ہے
مرا سایا بھی
مجھ سے کھیلتا ہے
جسے آنکھوں
سے بے گھر کر دیا تھا
وہ آوارہ سڑک
پر گھومتا ہے
نفی ہوکر بھی
اپنی جی رہا ہے
ہر اک شخص
اپنا رتبہ جانتا ہے
مسافر ہو تو
ٹھہرو تم اُسی گھر
محبت سے
تمہیں جو روکتا ہے
چلو دیکھیں
عروج ِ فن کہاں ہے
نئی رہیں یہ راشدٌ کھولتا ہے
___________
![]() |
A Ghazal by Rashid Fazli |
Friday, August 17, 2012
غزل : کبھی زندگی جو عذاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کبھی زندگی
جو عذاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کوئی ٹوٹتا
ہوا خواب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
یہ تمہارے
ہونٹوں کی تشنگی، کبھی سیل ِ خوں میں سفر کرے
جو نظر کے
آگے سراب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کبھی اپنے
قرضۂ جان کا، کبھی زخم ہاۓ گداز کا
تمہیں دینا کوئی
حساب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
یوں خلا میں
گھورتے گھورتے کوئی لمحہ ایسا ٹھہر پڑے
کہ سوال ہو
نہ جواب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
وہی تازگی ہے
درون ِ دل، مرا زخم ناب کھلا ہوا
تمہیں دیکھنا
جو گلاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کسی دل گرفتہ
خیال سے جو تمہاری آنکھیں امنڈ پڑیں
کوئی موج ِ
خوں تہۂِ آب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
بڑی بے ثبات
ہے زندگی کسی موج ِ آب کے زور پر
کہیں تیرتا
جو حُباب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کسی آس پر
کٹے زندگی، کبھی آسماں پر نظر اٹھے
تو دعا سے تم
کو حجاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
مرے بخت کی
یہ نوشت بھی ہے سیاہیوں سے لکھی ہوئی
جو تمہارے
آگے کتاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
___________________
![]() |
A Ghazal by Rashid Fazli |
Friday, August 10, 2012
غزل : اِس نگر میں جو بھی ہے اپنا، پرایا اجنبی
اِس نگر میں
جو بھی ہے اپنا، پرایا اجنبی
جل رہا ہوں
دھوپ میں تو میرا سایا، اجنبی
کون پہچانے
گا تم کو دور جب گھر سے ہوئے
چھوڑ کر اپنے
کناروں کو ہے دریا، اجنبی
ڈھونڈھتا ہوں
اپنے لوگوں میں میں اپنے آپ کو
کیا کہوں کہ
شہر دل میں جو بھی آیا، اجنبی
تیر کس کا
تھا نشانہ کون تھا جانا نہیں
بیچ میں جس
کے میں آیا زخم کھایا اجنبی
ہر طرف
آنکھیں بچھی ہیں میں نظر آتا نہیں
ڈھونڈھ کر
دکھاۓ کوئی میرے جیسا اجنبی
صبح کو مل کر
گیا ہے شام کو انجان ہے
جان کر جس کو
نہ جانے میں وہ تنہا اجنبی
ایک مدت تک فریبِ
ہمسفر کھاتے رہے
ساتھ جو چلتا
رہا اس کو بھی پایا، اجنبی
چاہتوں کے
درمیاں بھی اس طرح ملتے ہیں لوگ
شہر میں ہو
جاۓ جیسے گاؤں والا اجنبی
اجنبی راہوں
میں ملتے ہو تو ہوتی قدر ہے
کھوج لو بہتر
ہے راشدٌ کوئی رستہ اجنبی
__________________
![]() |
A Ghazal by Rashid Fazli |
Monday, July 30, 2012
غزل : ہر جہت آنکھ کی تیرگی اور میں
ہر جہت آنکھ
کی تیرگی اور میں
بے ہُنر
زندگی، بے کسی اور میں
دلربا پھول
کی اک مہک اور تو
درد کی اک
کھلی چاندنی اور میں
آنکھ میں دور
تک درد کا رتجگا!
بے سبب رات
کی خامشی اور میں
آس کی سیج پر
موسموں کی دھنک
روزوشب درد
کی رُت نئی اور میں
حوصلہ بے
نمو، بے شرر خواہشیں
بے محل اک
زمیں گھاس کی اور میں
بے ہوا بے
مکاں، جسم کا سائباں
بے بدن ذات
کی آگہی اور میں
بے جھجک آنکھ
کی دور سے گفتگو
بے قبا حسن
کی سادگی اور میں
بے ثمر
ٹہنیاں آس کی، خواب کی
بے نوا شام
کی راگنی اور میں
بے سماں
آئینے دھند کی صورتیں!
بے زباں آنکھ کی روشنی اور میں
______________
![]() |
Ghazal by Rashid Fazli |
Friday, July 27, 2012
غزل : شورش دو جہان سے نکلا
شورش ِ دو
جہان سے نکلا
جب دھواں
میری جان سے نکلا
تو بھی کچھ
مجھ سے بدگمان رہا
میں بھی تیرے
گمان سے نکلا
کوئی ٹوٹا،
گلی میں شور ہوا
میں بھی اپنے
مکان سے نکلا
خوبصورت سی
ایک آہٹ پر
جوگی اپنے
دھیان سے نکلا
ڈوبنے کی ہوس
کسے تھی یہاں
پانی اونچا
نشان سے نکلا
اپنی چاہت
خرید کر اک شخص!
بے حسی کی
دکان سے نکلا
_____________
Labels:
Ghazal,
Mohammad Yahya Farooqui,
Rashid Fazli,
Urdu Poetry
Subscribe to:
Posts (Atom)