پیروں تلے
زمیں نہیں اک آسماں تو ہے
میرا جو کوئی
گھر نہیں تیرا جہاں تو ہے
یہ زندگی
اجاڑ سا صحرا سہی مگر
کوئی خیال و
خواب میں میرے نہاں تو ہے
لغزش ہزار
میرے قدم سے لپٹ گئی
پر اک قدم پہ
تیرا ہی کون و مکاں تو ہے
پندار اپنا
لے کے جیا اور مر گیا
تو جو نہیں
جہاں میں تری داستاں تو ہے
میں نے تجھے
بنا دیا اپنی غزل کی روح
تو دیکھ اس
میں میرے لہو کا نشاں تو ہے
کچھ یہ کشید
کم نہیں اب زیست کے لیے
ہجرت کا درد
خون میں میرے رواں تو ہے
راشدٌ بھلائی
کر کے تُو دریا میں ڈال دے
اس کا صلا یہاں نہیں لیکن وہاں تو ہے
_____________
click the image to enlarge
A Ghazal by Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment