کسی پتھر
زباں کی اک دعا ہوں
جو سناٹوں پہ
پھیلا جا رہا ہوں
خموشی کی
صلیبیں پوچھتی ہیں!
میں کس کے سر
کا الزام ِ وفا ہوں
ترے اس طاق
نسیاں کا اجالا
ترے خوابوں
کا اک جلتا دیا ہوں
جہاں پانی کی
دیواروں کی حد ہے
وہیں پہ سر
جھکائے میں کھڑا ہوں
تری چاہت کی
خوشبو جانتی ہے!
میں اپنے درد
سے رسوا ہوا ہوں
نگاہوں میں
دھنک کا ایک دریا
میں اس دریا
کا عکس ِ بے بہا ہوں
یہ رشتہ
ٹوٹنے سے جڑ گیا ہے
وہ جنگل ہے تو میں اس کی صدا ہوں
___________________
A Ghazal by Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment