کسی کی ابھی
چشم ِ تر گرم ہے
اسی واسطے یہ
سفر گرم ہے
چھوا کس نے
آبِ رواں صبح کو
ندی کا بدن
کس قدر گرم ہے
یہ کیسا سفر
ہے مرے دوستو!
نہ جلتا بدن
ہے نہ سر گرم ہے
جدھر سے وہ
گزرا تھا مدت ہوئی
سنا ہے وہ
راہِ گزر گرم ہے
جلائی تھی اک
آگ ہم نے کبھی
اسی سے یہ
شام و سحر گرم ہے
شرافت پہ اک
شخص زندہ رہا
مرے شہر میں
یہ خبر گرم ہے
کوئی برق آسا
بدن دیکھ کر
ہر اک آدمی
کی نظر گرم ہے
ہنر کوئی
راشدٌ نے سیکھا نہیں
ہر اک بزم میں وہ مگر گرم ہے
____________
Please click on the image to enlarge
A Ghazal by Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment