Friday, August 10, 2012

غزل : اِس نگر میں جو بھی ہے اپنا، پرایا اجنبی

اِس نگر میں جو بھی ہے اپنا، پرایا اجنبی
جل رہا ہوں دھوپ میں تو میرا سایا، اجنبی

کون پہچانے گا تم کو دور جب گھر سے ہوئے
چھوڑ کر اپنے کناروں کو ہے دریا، اجنبی

ڈھونڈھتا ہوں اپنے لوگوں میں میں اپنے آپ کو
کیا کہوں کہ شہر دل میں جو بھی آیا، اجنبی

تیر کس کا تھا نشانہ کون تھا جانا نہیں
بیچ میں جس کے میں آیا زخم کھایا اجنبی

ہر طرف آنکھیں بچھی ہیں میں نظر آتا نہیں
ڈھونڈھ کر دکھاۓ کوئی میرے جیسا اجنبی

صبح کو مل کر گیا ہے شام کو انجان ہے
جان کر جس کو نہ جانے میں وہ تنہا اجنبی

ایک مدت تک فریبِ ہمسفر کھاتے رہے
ساتھ جو چلتا رہا اس کو بھی پایا، اجنبی

چاہتوں کے درمیاں بھی اس طرح ملتے ہیں لوگ
شہر میں ہو جاۓ جیسے گاؤں والا اجنبی

اجنبی راہوں میں ملتے ہو تو ہوتی قدر ہے
کھوج لو بہتر ہے راشدٌ کوئی رستہ اجنبی
__________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli
 

No comments:

Post a Comment