Showing posts with label Ghazal by Rashid Fazli. Show all posts
Showing posts with label Ghazal by Rashid Fazli. Show all posts

Wednesday, January 30, 2019

Ghazal : Phoolon Phoolon Mahkey Lekin Shabnam Shabnam Roye Toh

A Ghazal by Rashid Fazli

غزل

پھولوں پھولوں مہکے لیکن شبنم شبنم روۓ تو
کوئی کسی کی خاطر پہلے اپنے آپ کوکھوۓ تو

لوگ بہت تھے جب آئ تھی تنہائی کی کالی رات
اپنے آپ سے لپٹے لیکن گہری نیند بھی سوۓ تو

اوسر بنجر کھیتوں میں سب رنگ کی کھیتی اگتی ہے
ایک سنہرا خواب آنکھوں میں لاکر کوئی بوۓ تو

کن لوگوں کا دل پگھلا اور کن لوگوں پر آنچ آئ
دھوپ کے آنگن کے بچے سب خون کے آنسوروۓ تو

کیسے کیسے کھیل تماشے دنیا میں اب ہوتے ہیں
دیکھنے والا خون میں لیکن اپنی آنکھ ڈبوۓ تو

راشد فضلی


ग़ज़ल 


फूलों फूलों महके लेकिन शबनम शबनम रोये तो
कोई किसी की ख़ातिर पहले अपने आप को खोये तो 

लोग बहुत थे जब आई थी तनहाई की काली रात
अपने आप से लिपटे लेकिन गहरी नींद भी सोये तो 

ऊसर बंजर खेतों में सब रंग की खेती उगती है
एक सुनहरा ख़ाब आँखों में लाकर कोई बोये तो 

किन लोगों का दिल पिघला और किन लोगों पर आँच आई
धूप के आँगन के बच्चे सब ख़ून के आँसू रोये तो 

कैसे कैसे खेल तमाशे दुनिया में अब होते हैं
देखने वाला ख़ून में लेकिन अपनी आँख डुबोये तो 


राशिद फ़ज़ली
Ghazal by Rashid Fazli




Wednesday, January 2, 2019

Ghazal : Na Kisi Ke Khaab-o Khyaal Mey Na Kisi Ki Dast-e Dua Mey Hun

Ghazal by Rashid Fazli

غزل

نہ کسی کے خواب و خیال میں، نہ کسی کے دستِ دعا میں ہوں
مجھے مل چکی ہیں بشارتیں، میں متاعِ چاکِ قبا میں ہوں

مجھے دشت، دشت صدا نہ دو مجھے لہر لہر ہوا نہ دو
مرا شہر شہر پتہ نہ لو، میں کسی کے عہدِ وفا میں ہوں

مجھے لوٹتے ہیں یہ لوگ کیوں، میں کسی کا زادِ سفر نہیں
میں خیال ہوں کسی شعر کا کسی آرزوۓ بقا میں ہوں

مجھے شام شام نہ سوچنا، مجھے رات رات نہ جاگنا
وہ جو ایک چہرہٴ صبح ہے، میں اسی کی قیدِ ضیا میں ہوں

مجھے ڈال ڈال نہ دیکھنا، مجھے پات پات نہ ڈھونڈنا!
میں کلی کے کھلنے کا راز ہوں یوں نگاہِ باد صبا میں ہوں

مجھے آنکھ آنکھ نہ کھوجنا جہاں دردِ دل کا پتہ نہ ہو
وہ جو گرد سے ہیں اٹے ہوۓ انہیں آئینوں کی جلا میں ہوں

مجھے لوگ کہتے ہیں زندگی مجھے دیکھتا نہیں کوئی بھی
میں نظر نظر کا فریب ہوں مگر آئینوں کی ضیا میں ہوں

میں وہ خاموشی جو دلوں میں ہے، وہی بے کسی جو لبوں پہ ہے
نہ میں لفظ ہوں، نہ میں شعر ہیں، نہ کسی کی طرزِ ادا میں ہوں

جو شفق سے رنگ میں ہو کہیں، انہیں لب سے جاکے یہ پوچھنا
میں کسی کی گردِ جبیں میں ہوں یا کسی کے رنگِ حنا میں ہوں

کبھی پر لگا کے اڑا نہیں، میں ہوس کی کوئی صدا نہیں
مرا پاؤں بھی ہے زمین پر، مگر میں کہ جیسے ہوا میں ہوں

راشد فضلی








Thursday, August 25, 2016

Ghazal : Apne Aap Mey Pagal Rahna Jaise Ham Aur Tum

A Ghazal by Rashid Fazli

غزل

اپنے آپ میں پاگل رہنا، جیسے ہم اور تم
دیواروں کا اندھا رشتہ جیسے ہم اور تم

اپنے آپ کناروں کا احساس مٹاۓ کون
بیچ میں ہے اک بہتا دریا جیسے ہم اور تم

دوری، قربت دونوں کا دکھ لیکر جیتے ہیں
پیڑ تلے ہے پیڑ کا سایہ جیسے ہم اور تم

ہنس کر، رو کر ساتھ سفر میں چلتے رہنا ہے
آپس میں یوں ڈرتے رہنا جیسے ہم اور تم

اتنے دنوں کا ساتھ ہمارا، پھر کیوں لگتا ہے
سپنوں میں ان دیکھا سپنا جیسے ہم اور تم

درد کا رشتہ ایک ہے لیکن، کون سمجھتا ہے
دونوں میں ہے ایک اکیلا جیسے ہم اور تم

گھر بھی اپنا، تم بھی اپنے پھر بھی لگتا ہے!
زیست ہے اپنی جنس کا سودا جیسے ہم اور تم

راشد فضلی

____________________find Rashid Fazli on facebook____________________

ग़ज़ल

अपने आप में पागल रहना, जैसे मैं और तुम
दीवारों का अंधा रिश्ता जैसे मैं और तुम

अपने आप किनारों का एहसास मिटाये कौन
बीच में है एक बहता दरया जैसे मैं और तुम

हँस कर, रो कर साथ सफ़र में चलते रहना है
आपस में यूँ डरते रहना जैसे मैं और तुम

इतने दिनों का साथ हमारा, फिर क्यों लगता है
सपनों में अनदेखा सपना जैसे मैं और तुम

दर्द का रिश्ता एक है लेकिन, कौन समझता है
दोनों में है एक अकेला जैसे मैं और तुम

राशिद फ़ज़ली

A Ghazal by Rashid Fazli

Wednesday, July 6, 2016

Ghazal : Phoolon Phoolon Mahke Lekin Shabnam Shabnam Roye To

An Urdu Ghazal by Rashid Fazli
غزل

پھولوں پھولوں مہکے لیکن شبنم شبنم روۓ تو
کوئی کسی کی خاطر پہلے اپنے آپ کوکھوۓ تو

لوگ بہت تھے جب آئ تھی تنہائی کی کالی رات
اپنے آپ سے لپٹے لیکن گہری نیند بھی سوۓ تو

اوسر بنجر کھیتوں میں سب رنگ کی کھیتی اگتی ہے
ایک سنہرا خواب آنکھوں میں لاکر کوئی بوۓ تو

کن لوگوں کا دل پگھلا اور کن لوگوں پر آنچ آئ
دھوپ کے آنگن کے بچے سب خون کے آنسوروۓ تو

کیسے کیسے کھیل تماشے دنیا میں اب ہوتے ہیں
دیکھنے والا خون میں لیکن اپنی آنکھ ڈبوۓ تو

راشد فضلی

____________________find Rashid Fazli on facebook____________________

ग़ज़ल

फूलों फूलों महके लेकिन शबनम शबनम रोए तो
कोई किसी की ख़ातिर पहले अपने आप को खोए तो

लोग बहुत थे जब आई थी तनहाई की काली रात
अपने आप से लिपटे लेकिन गहरी नींद भी सोए तो

ऊसर बंजर खेतों में सब रंग की खेती उगती है
एक सुनहरा ख़ाब आँखों में लाकर कोई बोए तो

किन लोगों का दिल पिघला और किन लोगों पर आँच आई
धूप के आँगन के बच्चे सब ख़ून के आँसू रोए तो

कैसे कैसे खेल तमाशे दुनिया में अब होते हैं
देखने वाला ख़ून में लेकिन अपनी आँख डुबोए तो

राशिद फ़ज़ली

An Urdu Ghazal by Rashid Fazli

Thursday, March 12, 2015

غزل : روز ہی گھٹتا بڑھتا ہے

غزل 

روز ہی گھٹتا بڑھتا ہے
دل میں دکھ کا دریا ہے
 
تیرے عشق کا پاگل پن!
دیواروں پر لٹکا ہے
 
میں بھی برگِ آوارہ 
تو بھی ہوا کا جھونکا ہے
 
تشنہ لب اب کیا مانگیں
دریا بھی تو پیاسا ہے
 
رنگ سُنہرا، یادوں کا
  ایک طلسمی دھوکہ ہے
 
جاگنے والی آنکھوں کا
دکھ بھی پتھر جیسا ہے
 
خوش وہ نہیں ہے اندر سے
مجھ میں جو بھی رہتا ہے
 
تیز ہوا کی زد پر ہے
ریت پہ جو کچھ لکھا ہے
 
میری قسمت میں شاید
اپنا ہی اِک سایہ ہے
 
ان آنکھوں کے سائے میں
کوئی ابھی تک جلتا ہے
 
راشدٌ جانے راتوں سے
کیا کچھ کہتا رہتا ہے
 
راشد فضلی
______________________________

Rashid Fazli Urdu Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

ग़ज़ल
 
रोज़ ही घटता बढ़ता है
दिल में दुख का दरिया है
 
मैं भी बर्गे आवारा
तू भी हवा का झोंका है
 
ख़ुश वह नहीं है अंदर से
मुझ में जो भी रहता है
 
तेज़ हवा की ज़द पर है
रेत पे जो कुछ लिखा है
 
मेरी क़िस्मत में शायद
अपना ही इक साया है
 
राशिद जाने रातों से
क्या कुछ कहता रहता है
 
राशिद फ़ज़ली
___________

उर्दू शायरी - राशिद फ़ज़ली
ग़ज़ल - राशिद फ़ज़ली
 

Saturday, January 10, 2015

غزل : جو حوصلہ نہیں رہا تو ہجرتوں سے ڈر گیا

غزل

جو حوصلہ نہیں رہا تو ہجرتوں سے ڈر گیا
قدم قدم جو رک گیا وہ راستے میں مر گیا

عجیب آدمی تھا وہ تمام عمر کاٹ کر
مسافتوں کے درد سے چُھٹا تو اپنے گھر گیا

فقط حنا کے رنگ کا خیال دل میں آنا تھا
وہ آئینے کے سامنے کچھ اور بھی نکھر گیا

عروج کی یہ آگہی کسے کہاں لبھا گئی
پہاڑ پر جو شخص تھا زمین پر اتر گیا

جو اپنے جسم و جان کو خیال کو سمیٹ کر
ہوا کے ساتھ لے اڑا تو خاک سا بکھر گیا

ہر ایک ذات کے لئے مسافرت تھی آئینہ!
جو آنکھ سے نظر گئی تو پاؤں سے سفر گیا

عجب ہے دل کا کھیل بھی جو چپ رہو تو کچھ نہیں
زبان کھول دی اگر تو اس کا سب اثر گیا

راشد فضلی
____________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

ग़ज़ल

जो हौसला नहीं रहा तो हिजरतों से डर गया
क़दम क़दम जो रुक गया वह रास्ते में मर गया

फ़क़त हिना के रंग का ख़्याल दिल में आना था
वह आईने के सामने कुछ और भी निखर गया

हर एक ज़ात के लिये मुसाफ़िरत थी आईना!
जो आँख से नज़र गई तो पाँव से सफ़र गया

अजब है दिल का खेल भी जो चुप रहो तो कुछ नहीं
ज़बान खोल दी अगर तो उसका सब असर गया
 
राशिद फ़ज़ली
_________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Tuesday, December 2, 2014

غزل : اِسی اک بات کا مجھ پر نشہ ہے

غزل

اِسی اک بات کا مجھ پر نشہ ہے
مرے خوابوں میں کوئی جاگتا ہے

مرے بیتے دنوں کی یاد لے کر
چلے آؤ کہ دروازہ کھلا ہے

میں اب ہر اجنبی کو جانتا ہوں!
کہ شہرِ جاں میں ہر چہرہ نیا ہے

ہر اک ہجرت کدے کی ہے علامت
وہی اک شخص جو تنہا کھڑا ہے

زباں کا ذائقہ اپنا لہو ہے
سمندر اپنا پانی پی رہا ہے

میں وہ ہوں جو تمہیں دِکھتا نہیں ہوں
مرے اندر تو کوئی دوسرا ہے

بصارت اپنی آنکھوں سے ہٹا لو،
کہ جو دیکھوگے وہ دیکھا ہوا ہے

یہاں شیشے کے دل ڈھلنے لگے ہیں
حقیقت جس کی پتھر جانتا ہے

راشد فضلی
_________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Thursday, November 13, 2014

غزل : کبھی زندگی جو عذاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

غزل

کبھی زندگی جو عذاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کوئی ٹوٹتا ہوا خواب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

یہ تمہارے ہونٹوں کی تشنگی، کبھی سیل ِ خوں میں سفر کرے
جو نظر کے آگے سراب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

کبھی اپنے قرضۂ جان کا، کبھی زخم ہاۓ گداز کا
تمہیں دینا کوئی حساب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

یوں خلا میں گھورتے گھورتے کوئی لمحہ ایسا ٹھہر پڑے
کہ سوال ہو نہ جواب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

وہی تازگی ہے درون ِ دل، مرا زخم ناب کھلا ہوا
تمہیں دیکھنا جو گلاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

کسی دل گرفتہ خیال سے جو تمہاری آنکھیں امنڈ پڑیں
کوئی موج ِ خوں تہۂِ آب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

بڑی بے ثبات ہے زندگی کسی موج ِ آب کے زور پر
کہیں تیرتا جو حُباب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

کسی آس پر کٹے زندگی، کبھی آسماں پہ نظر اٹھے
تو دعا سے تم کو حجاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

مرے بخت کی یہ نوشت بھی ہے سیاہیوں سے لکھی ہوئی
جو تمہارے آگے کتاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

راشد فضلی
_______________________

Urdu Poetry by Rashid Fazli
A Ghazal by Rashid Fazli

Monday, August 27, 2012

غزل : رنگ بدلتے جاؤ منظر خود بدلتے جائیں گے

رنگ بدلتے جاؤ منظر خود ہی بدلتے جائیں گے
آتی رُت میں جاتی رُت کے جذبے پگھلتے جائیں گے

آج سنپیرے جادوگر کچھ ایسے بھی مل جائیں گے
سانپ نگلتے جائیں گے جو زہر اُگلتے جائیں گے

سپنے نئے جگاتے جاؤ، جھوٹی آس دلاتے جاؤ
ہم خوابوں پر جینے والے یوں بھی بہلتے جائیں گے

خون جلا ہے جن کے دل کا، آنسو اُن کے لفظ بنے
آبِ رواں پر لکھنے والے خود بھی پگھلتے جائیں گے

رنگ برنگی تتلی جیسی لاکھوں خواہش دنیا کی
اِس دنیا سے جانے والے ہاتھ ہی ملتے جائیں گے

شوق ِ سفر میں گھا ٹا کیسا، جادے کی زنجیر کہاں
ہم رُک جائیں گے تو ہمارے رستے چلتے جائیں گے

اپنی سوچیں ساری ہم تو، کل پرزوں کو سونپ چکے
تصویروں میں کاغذ کی ہم آج سے ڈھلتے جائیں گے

دشتِ سفر میں آبلے سارے خون کے آنسو روئیں گے
چلتے رہو تو تلووں کے سب خار نکلتے جائیں گے
_________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Tuesday, August 21, 2012

غزل : پیروں تلے زمیں نہیں اک آسماں تو ہے

پیروں تلے زمیں نہیں اک آسماں تو ہے
میرا جو کوئی گھر نہیں تیرا جہاں تو ہے

یہ زندگی اجاڑ سا صحرا سہی مگر
کوئی خیال و خواب میں میرے نہاں تو ہے

لغزش ہزار میرے قدم سے لپٹ گئی
پر اک قدم پہ تیرا ہی کون و مکاں تو ہے

پندار اپنا لے کے جیا اور مر گیا
تو جو نہیں جہاں میں تری داستاں تو ہے

میں نے تجھے بنا دیا اپنی غزل کی روح
تو دیکھ اس میں میرے لہو کا نشاں تو ہے

کچھ یہ کشید کم نہیں اب زیست کے لیے
ہجرت کا درد خون میں میرے رواں تو ہے

راشدٌ بھلائی کر کے تُو دریا میں ڈال دے
اس کا صلا یہاں نہیں لیکن وہاں تو ہے
_____________
click the image to enlarge
Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Sunday, August 19, 2012

غزل : کھلونا ہوں ترا لیکن یہ حد ہے

کوئی آنکھوں میں میری جاگتا ہے
مرے خوابوں میں اکثر بولتا ہے

کسی دہلیز کی میں آرزو ہوں
مجھے آنکھوں سے کوئی سوچتا ہے

اسی اک شخص سے کترا رہا ہوں
مجھے جو میرے اندر دیکھتا ہے

کھلونا ہوں ترا لیکن یہ حد ہے
مرا سایا بھی مجھ سے کھیلتا ہے

جسے آنکھوں سے بے گھر کر دیا تھا
وہ آوارہ سڑک پر گھومتا ہے

نفی ہوکر بھی اپنی جی رہا ہے
ہر اک شخص اپنا رتبہ جانتا ہے

مسافر ہو تو ٹھہرو تم اُسی گھر
محبت سے تمہیں جو روکتا ہے

چلو دیکھیں عروج ِ فن کہاں ہے
نئی رہیں یہ راشدٌ کھولتا ہے
___________
 
Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli
 

Friday, August 17, 2012

غزل : کبھی زندگی جو عذاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

کبھی زندگی جو عذاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کوئی ٹوٹتا ہوا خواب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

یہ تمہارے ہونٹوں کی تشنگی، کبھی سیل ِ خوں میں سفر کرے
جو نظر کے آگے سراب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

کبھی اپنے قرضۂ جان کا، کبھی زخم ہاۓ گداز کا
تمہیں دینا کوئی حساب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

یوں خلا میں گھورتے گھورتے کوئی لمحہ ایسا ٹھہر پڑے
کہ سوال ہو نہ جواب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

وہی تازگی ہے درون ِ دل، مرا زخم ناب کھلا ہوا
تمہیں دیکھنا جو گلاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

کسی دل گرفتہ خیال سے جو تمہاری آنکھیں امنڈ پڑیں
کوئی موج ِ خوں تہۂِ آب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

بڑی بے ثبات ہے زندگی کسی موج ِ آب کے زور پر
کہیں تیرتا جو حُباب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

کسی آس پر کٹے زندگی، کبھی آسماں پر نظر اٹھے
تو دعا سے تم کو حجاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

مرے بخت کی یہ نوشت بھی ہے سیاہیوں سے لکھی ہوئی
جو تمہارے آگے کتاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
___________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli
 

Friday, August 10, 2012

غزل : اِس نگر میں جو بھی ہے اپنا، پرایا اجنبی

اِس نگر میں جو بھی ہے اپنا، پرایا اجنبی
جل رہا ہوں دھوپ میں تو میرا سایا، اجنبی

کون پہچانے گا تم کو دور جب گھر سے ہوئے
چھوڑ کر اپنے کناروں کو ہے دریا، اجنبی

ڈھونڈھتا ہوں اپنے لوگوں میں میں اپنے آپ کو
کیا کہوں کہ شہر دل میں جو بھی آیا، اجنبی

تیر کس کا تھا نشانہ کون تھا جانا نہیں
بیچ میں جس کے میں آیا زخم کھایا اجنبی

ہر طرف آنکھیں بچھی ہیں میں نظر آتا نہیں
ڈھونڈھ کر دکھاۓ کوئی میرے جیسا اجنبی

صبح کو مل کر گیا ہے شام کو انجان ہے
جان کر جس کو نہ جانے میں وہ تنہا اجنبی

ایک مدت تک فریبِ ہمسفر کھاتے رہے
ساتھ جو چلتا رہا اس کو بھی پایا، اجنبی

چاہتوں کے درمیاں بھی اس طرح ملتے ہیں لوگ
شہر میں ہو جاۓ جیسے گاؤں والا اجنبی

اجنبی راہوں میں ملتے ہو تو ہوتی قدر ہے
کھوج لو بہتر ہے راشدٌ کوئی رستہ اجنبی
__________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli