رنگ بدلتے
جاؤ منظر خود ہی بدلتے جائیں گے
آتی رُت میں
جاتی رُت کے جذبے پگھلتے جائیں گے
آج سنپیرے جادوگر
کچھ ایسے بھی مل جائیں گے
سانپ نگلتے
جائیں گے جو زہر اُگلتے جائیں گے
سپنے نئے
جگاتے جاؤ، جھوٹی آس دلاتے جاؤ
ہم خوابوں پر
جینے والے یوں بھی بہلتے جائیں گے
خون جلا ہے
جن کے دل کا، آنسو اُن کے لفظ بنے
آبِ رواں پر
لکھنے والے خود بھی پگھلتے جائیں گے
رنگ برنگی
تتلی جیسی لاکھوں خواہش دنیا کی
اِس دنیا سے
جانے والے ہاتھ ہی ملتے جائیں گے
شوق ِ سفر
میں گھا ٹا کیسا، جادے کی زنجیر کہاں
ہم رُک جائیں
گے تو ہمارے رستے چلتے جائیں گے
اپنی سوچیں
ساری ہم تو، کل پرزوں کو سونپ چکے
تصویروں میں
کاغذ کی ہم آج سے ڈھلتے جائیں گے
دشتِ سفر میں
آبلے سارے خون کے آنسو روئیں گے
چلتے رہو تو تلووں کے سب خار نکلتے جائیں گے
No comments:
Post a Comment