دھوئیں کی
تہہِ لبوں تک چھا گئی ہے
کثافت دور تک
پھیلا گئی ہے
اندھیرے سے
اجالا مانگنے میں
بصارت آنکھ
کی پتھرا گئی ہے
وہی صورت جو
پہلے آنکھ میں تھی
دھنک جیسا
بدن اک پا گئی ہے
یہ دیواروں
پہ سایہ چل رہا ہے
کہیں سے دھوپ
گھر میں آ گئی ہے
شفق بھی آج
اپنے آئینے میں
کسی کو دیکھ
کر شرما گئی ہے
ہوا مہکی
محیطِ جاں پہ اپنی!
کسی کی یاد
خوشبو پا گئی ہے
نظر پانی کی
دیواروں پر ٹھہری
مناظر سے یہ دھوکا کھا گئی ہے
___________
A Ghazal by Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment