روز ہی گھٹتا
بڑھتا ہے
دل میں دکھ
کا دریا ہے
تیرے عشق کا
پاگل پن!
دیواروں پر
لٹکا ہے
میں بھی برگِ
آوارہ
تو بھی ہوا
کا جھونکا ہے
تشنہ لب اب
کیا مانگیں
دریا بھی تو
پیاسا ہے
رنگ سُنہرا،
یادوں کا
ایک طلسمی
دھوکہ ہے
جاگنے والی
آنکھوں کا
دکھ بھی پتھر
جیسا ہے
خوش وہ نہیں
ہے اندر سے
مجھ میں جو
بھی رہتا ہے
تیز ہوا کی
زد پر ہے
ریت پہ جو
کچھ لکھا ہے
میری قسمت
میں شاید
اپنا ہی اِک
سایہ ہے
ان آنکھوں کے
سائے میں
کوئی ابھی تک
جلتا ہے
راشدٌ جانے
راتوں سے
کیا کچھ کہتا رہتا ہے
__________________
A Ghazal by Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment