شعاعیں اندھیروں کی بستی میں
گم ہیں
اِن آنکھوں سے کہہ دو نہ
دیکھیں وہ سب کچھ
جنہیں اپنے ناخُن پہ ھم نے
سجایا
وہ اجداد کا قرض
ادا کرنا جس کو، وطیرہ بنایا
صعوبت میں سانسوں کا قرضہ
چکایا
اندھیروں کی یلغار بڑھنے لگی
ہے
کسی سمت دیکھوں
اب آنکھوں میں کوئی کرن ایسی
باقی نہیں ہے
جو جاکر،
اندھیروں کے اس دودھیا جال کو
کاٹ کر پھینک دے،
ہو ممکن تو آنکھوں کی ساری
شعاعیں
کہیں اپنی پتلی میں محفوظ رکھو
قیامت کے دن اپنے اجداد کو
جاکے واپس کرو
قرض ِ دنیا نہ دے پاؤ تو
قرض ِ عقبیٰ تو دو!!
_____________
A Nazm by Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment