غزل
اِسی اک بات کا مجھ پر نشہ ہے
مرے خوابوں میں کوئی جاگتا ہے
مرے بیتے دنوں کی یاد لے کر
چلے آؤ کہ دروازہ کھلا ہے
میں اب ہر اجنبی کو جانتا ہوں!
کہ شہرِ جاں میں ہر چہرہ نیا ہے
ہر اک ہجرت کدے کی ہے علامت
وہی اک شخص جو تنہا کھڑا ہے
زباں کا ذائقہ اپنا لہو ہے
سمندر اپنا پانی پی رہا ہے
میں وہ ہوں جو تمہیں دِکھتا نہیں ہوں
مرے اندر تو کوئی دوسرا ہے
بصارت اپنی آنکھوں سے ہٹا لو،
کہ جو دیکھوگے وہ دیکھا ہوا ہے
یہاں شیشے کے دل ڈھلنے لگے ہیں
حقیقت جس کی پتھر جانتا ہے
راشد فضلی
اِسی اک بات کا مجھ پر نشہ ہے
مرے خوابوں میں کوئی جاگتا ہے
مرے بیتے دنوں کی یاد لے کر
چلے آؤ کہ دروازہ کھلا ہے
میں اب ہر اجنبی کو جانتا ہوں!
کہ شہرِ جاں میں ہر چہرہ نیا ہے
ہر اک ہجرت کدے کی ہے علامت
وہی اک شخص جو تنہا کھڑا ہے
زباں کا ذائقہ اپنا لہو ہے
سمندر اپنا پانی پی رہا ہے
میں وہ ہوں جو تمہیں دِکھتا نہیں ہوں
مرے اندر تو کوئی دوسرا ہے
بصارت اپنی آنکھوں سے ہٹا لو،
کہ جو دیکھوگے وہ دیکھا ہوا ہے
یہاں شیشے کے دل ڈھلنے لگے ہیں
حقیقت جس کی پتھر جانتا ہے
راشد فضلی
_________________________
No comments:
Post a Comment