ایک سناٹا سا
ہے پھیلا ہوا
آج دل بھی
درد کا صحرا ہوا
اک دھواں سا
تھا خیالوں میں مرے
آئینے میں
آکے جو چہرا ہوا
عام سی اک
چیز ہو بازار میں
میرا بھی کچھ
اس طرح سودا ہوا
آندھیوں کے
بیچ میری کیا بساط
ایک پتا شاخ
پر سہما ہوا
کیا ہوا جو
تیری آنکھوں سے گرا
میں کہ قطرہ
تھا مگر دریا ہوا
کیا قیامت ہے
کہ دیکھوں رات دن
اک سمندر پیاس
کا پھیلا ہوا
وہ مرا تھا،
اشک بن کر گر گیا
آج میں تنہا
ہوا، تنہا ہوا
اک فرشتہ
آسماں سے گر پڑے
یوں زمیں پہ
آ کے میں رسوا ہوا
بوڑھی آنکھوں
میں کہانی زیست کی
ایک لمحہ
جیسے ہو ٹھہرا ہوا
پڑھ رہا تھا
ہاتھ کی سیدھی لکیر
زندگی میں جو
ہوا الٹا ہوا
سب کے ماتھے
پر ہیں راشدٌ سلوٹیں
سارے چہروں پر ہوں میں لکھا ہوا
___________
Ghazal by Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment