Saturday, April 7, 2012

نظم : آج، کل اور کل کے بعد

نظر کے تعاقب میں بیٹھی ہوئی خواہشیں
زیر لب مسکراتی ہوئی کروٹیں
داستان محبت کی چوکھٹ سے
لپٹی ہوئی، بے بسی، زندگی
لوح تربت پہ کندہ کچھ الفاظ ہیں
جو صحیفوں میں پہلے بھی لکھے گئے
موت سن کر کسی کی کوئی آج روتا نہیں
موت گویا کہ اب سانحہ بھی نہیں
زندگی!
لوح تربت پہ کندہ کچھ الفاظ ہیں
زندگی بھی نہیں،
پھر یہ جدوجہد کس لئے
شور غل کس لئے......
دور پھیلے ہوئے ایک صحرا میں ہم
جنگ کے منتظر،
آہنی آدموں کے قوی جسم کی
بے ضرورت سی ایجاد میں
آج مصروف ہیں......
جنگ ہوگی مگر،
کس کو مرنا ہے ابتک یہ معلوم کرنے کی کوشش کسی نے نہ کی
یوں تو موجودہ نسلوں کی تربت کو کھنڈر بنے،
ایک عرصہ ہوا!
اور نسلیں جو اب آئیں گی
وہ پہلے سے مرنے کو تیار ہیں یہ غلط ہے
وہ پہلے بھی کتنی دفعہ مر چکی ہیں
نظر کے تعاقب میں خواہش نہیں،
حیرتیں ہیں
مگر یہ کہاں ہیں،
مگر یہ کہاں ہیں.....!!!
__________

Nazm by Rashid Fazli

No comments:

Post a Comment