Thursday, April 5, 2012

نظم : رات، آنکھیں، سمندر

سبب کچھ بھی ہو،
روشنی کا سمندر مجھے گھورتا ہے
کہ میں اب فریبِ نظر میں مقید نہیں ہوں
سمندر کے سارے اندھیروں کے سرِّ نہاں پر
قدم رکھ چکا ہوں
یہ وہ روشنی ہے
اگر آئینے پر پڑے
اور وہی آئینہ آنکھ کے سامنے ہو
تو ساری بصارت تمہاری
کسی برق آسا چمک سے
تمہاری ہی آنکھوں سے لے جائے گا
فقط رات باقی رہے گی
خطا میری یہ ہے کہ میں رات کے اس اندھیرے کا منکر نہیں ہوں
پسِ پردہ جو ہے اُسے دیکھتا ہوں
سمندر سے کہدو مجھے اب نہ گھورے
کہ میں روزِ اول سے اس کا شناور رہا ہوں
کہاں روشنی ہے اُسے جانتا ہوں
میں اس کے اندھیرے کو پہچانتا ہوں
_____________

Nazm by Rashid Fazli


No comments:

Post a Comment