Monday, April 2, 2012

غزل : پھر سوال آ گیا تقاضوں کا

پھر سوال آ گیا تقاضوں کا
وقت باقی نہیں ہے باتوں کا

لہریں آتی ہیں لہریں جاتی ہیں
دل سمندر ہے تیری یادوں کا

درد بن کر دلوں میں رہتا ہوں
میں تو کتبہ نہیں ہوں راہوں کا

جسم ہی جسم ہے تمام یہاں
کوئی چہرا کہاں ہے راتوں کا

سارے ارمان ٹوٹ کر آئے
در کھلا رہ گیا تھا خوابوں کا

اب کفِ دست ہی تو ملنا ہے
طوطا اڑ جو چکا ہے ہاتھوں کا
__________
 
Ghazal by Rashid Fazli
 

No comments:

Post a Comment