Friday, April 6, 2012

نظم : لکیریں

(اس بچے کے نام جس نے قلم پکڑنا شروع کر دیا ہے)

یہ ساری لکیریں جو تم کھینچتے ہو
ہماری ہتھیلی پہ پھیلی ہوئی ہیں
ہمارا شجر ہے، تمہارا مقدر
مقدر کے سارے شجر جھولتے ہیں
دکھوں کی یہ دنیا،
دکھوں کی یہ دنیا،
پہاڑوں کے پھیلے سمندر میں ڈالو
نئی کوئی بستی زمیں سے اُگاؤ
تھکن اپنے شانے سے نیچے اتارو
سہانے سفر کا حسیں خواب دیکھو
لکیروں کی الجھن دلوں سے نکالو
مرے پاس آؤ
مرے پاس آؤ
رگوں میں لہو کی کرامت کا قصہ
ابھی زندگی کی طرح گونجتا ہے
یہ بے حس لکیریں جو بے نام سی ہیں
یہ اک کھیل ہے،
بس تمہارے لئے ہے
یہ ساری لکیریں جو تم کھینچتے ہو
ہماری ہتھیلی سے باہر نہیں ہیں!!!
______________
 
Nazm by Rashid Fazli
 

No comments:

Post a Comment