Monday, April 9, 2012

نظم : موت

میں اپنے کاندھے پہ اپنا سر رکھ کے رو رہا ہوں
بہت سے رشتے رفاقتوں میں گھرا ہوا ہوں

طلائی لفظوں، رسیلی باتوں کو کان سُن سُن کے پک چکے ہیں
کسے پکاروں؟

میں ایک صحرا ہوں زندگی کا
کہ جس میں آواز کا یہ جادو پہنچ کے ایسا بکھر چکا ہے
کہ میرے اپنے بھی آنسوؤں میں
جلن کی شدت کا اک ڈراما سا لگ رہا ہے
میں خود پہ رونا بھی چاہتا ہوں
مگر کوئی ہاتھ پھر سے شانے پہ میرے آکر یہ کہہ رہا ہے
"فریب کھانا بھی زندگی ہے.
تم اپنے رشتوں، رفاقتوں سے فریب کہا کر
بھی جی رہے ہو"

یہی تو میں خود سے پوچھتا ہوں
کہ اس خرابے میں کون زندہ بچا ہے اب تک
ہر ایک اپنے کو رو رہا ہے!!
______________

Death, the poem by Rashid Fazli

No comments:

Post a Comment