غزل
کیسی حسرت تھی کہ اس کی دوستداری دیکھتے
اور اس کے بعد اپنا زخمِ کاری دیکھتے
کیا نہ تھا آنکھوں میں اپنی، اف مگر یہ تشنگی
کٹ گئی آخر اسے بھی عمر ساری دیکھتے
محو حیرت تھے ہم اتنے اس فریبِ زیست میں
اتنی فرصت کب ملی کہ رسمِ یاری دیکھتے
اس قدر شہرت ملی تھی کب مجھے پہلے کبھی
دیکھنا تھا گر تمہیں تو میری خواری دیکھتے
مثل موسیٰ کاش ملتی مجھ کو بھی اک اذن دید
خاک ہو جاتے مگر صورت تمہاری دیکھتے
اُف یہ عمرِ مختصر، ملتی ہمیں جو عمرِ خضر
ہم تیرے عہدِ وفا کی پائیداری دیکھتے!!
آئینے کے سامنے تھی اپنے چہرے پر نظر
رہ گئے ہم تو مگر صورت تمہاری دیکھتے
___________
Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment