غزل
گم کردہ تمناؤں کا ہے خواب نظر میں
ملتا ہے جو ہوتا نہیں نایاب نظر میں
ہر شخص کنارے پہ کھڑا ڈوب رہا ہے،
ہر دل میں چھپا دریا ہے، سیلاب نظر میں
ڈوبا ہے مرے سینے میں ہر آس کا سورج
منظر ہے سیہ رات کا بے خواب نظر میں
ناکامئی ترسیل ہُنر دیکھ رہا ہوں.....!
ہیں کتنے گہر آج تہِ آب نظر میں
چاہت کے دریچے سے کوئی جھانک رہا ہے
منظر ہے مگر آج بھی بیتاب نظر میں
کھلتا نہیں کچھ راز میری تشنہ نظر کا
اک درد کا سایہ ہے کہ مہتاب نظر میں
جس طرز میں دیکھا ہے وہ کہتا نہیں راشدٌ
آ جاتے ہیں کچھ فن کے بھی آداب نظر میں
گم کردہ تمناؤں کا ہے خواب نظر میں
ملتا ہے جو ہوتا نہیں نایاب نظر میں
ہر شخص کنارے پہ کھڑا ڈوب رہا ہے،
ہر دل میں چھپا دریا ہے، سیلاب نظر میں
ڈوبا ہے مرے سینے میں ہر آس کا سورج
منظر ہے سیہ رات کا بے خواب نظر میں
ناکامئی ترسیل ہُنر دیکھ رہا ہوں.....!
ہیں کتنے گہر آج تہِ آب نظر میں
چاہت کے دریچے سے کوئی جھانک رہا ہے
منظر ہے مگر آج بھی بیتاب نظر میں
کھلتا نہیں کچھ راز میری تشنہ نظر کا
اک درد کا سایہ ہے کہ مہتاب نظر میں
جس طرز میں دیکھا ہے وہ کہتا نہیں راشدٌ
آ جاتے ہیں کچھ فن کے بھی آداب نظر میں
______________
Ghazal by Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment