غزل
جذبوں کا اِک سوکھا دریا، ہم بھی چپ اور تم بھی چپ
سناٹا ہے کیسا پھیلا، ہم بھی چپ اور تم بھی چپ
سرخ گلابوں کی خاطر تو سر کٹواۓ پودوں نے
شاخوں پر ہے زخم کا چہرا، ہم بھی چپ اور تم بھی چپ
دیکھ رہے تھے ہم دونوں ہی محرومی کی تصویریں
کوئی کسی سے اب کیا کہتا ہم بھی چپ اور تم بھی چپ
اپنی اپنی ویرانی میں دیکھو سب کچھ ختم ہوا
پیار کی باتیں، روز کا جھگڑا ہم بھی چپ اور تم بھی چپ
اپنا اپنا پاگل پن ہے، اپنی دھن ہے، اپنی مستی
عشق ہے کتنا گونگا بہرا، ہم بھی چپ اور تم بھی چپ
پہلے پیار کی پہلی سازش میں تو دونوں شامل تھے
کس نے کھایا کس سے دھوکہ، ہم بھی چپ اور تم بھی چپ
زیست کے لمبے عرصے میں ہو جیسے سب کچھ سویا سویا
جاگ رہا ہے درد کا رشتہ ہم بھی چپ اور تم بھی چپ
اپنے قدم کی ہر جنبش کو جس پر رکھ کر آئے تھے
بول رہا ہے اب وہ رستہ ہم بھی چپ اور تم بھی چپ
روتے، ہنستے، جاگتے سوتے ہم بھی قصّہ بن جائینگے
راشدٌ اِک دن ہوگا ایسا ہم بھی چپ اور تم بھی چپ
___________________
Ghazal by Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment