غزل
تمام عمر اُسے مجھ سے کچھ گِلا سا رہا
میں اُس کے ہونٹ پہ گویا کہ اک دعا سا رہا
اُسی کا خواب مجھے رات بھر جگاتا ہے
وہ ایک شخص جو مجھ سے سدا خفا سا رہا
یہ اور بات تھی اپنا لیا تھا غیروں نے
میں اپنے آپ سے کتنا جُدا جُدا سا رہا
کہاں کا درد سمیٹا تھا جھیل آنکھوں نے
وہ چاند چہرہ بھی اکثر بجھا بجھا سا رہا
جگا رہا ہوں اُسی خواب کو اب آنکھوں میں
جو میری زیست کے جنگل میں اک صدا سا رہا
وہ آئنے جو مرے گِرد جال بُنتے تھے
میں اُن سے دور نہ تھا پھر بھی فاصلہ سا رہا
رُتوں کے چہرے بدلتے ہوئے تو دیکھے تھے
مگر یہ رنگ جو خوشبو کا تھا اُڑا سا رہا
میں سونپتا اُسے کس کو کہ میرا قاتل تھا
جو درد بن کے مرے دل میں بھی چھپا سا رہا
_____________
Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment