غزل
مجھ کو ہنستا دیکھ کر، دل کی اُداسی رو گئی
ایک امیدِ فریبِ خوشدلی بھی کھو گئی!
رات نے میرے بدن میں جھانک کر دیکھا تھا گھر
زندگی بھر کے لئے آکر وہیں پر سو گئی
اپنے جسم و جاں کی کھیتی دھوپ کی زد میں رہی
سبز رنگوں میں اگی تھی آج پیلی ہو گئی....!
ظلمتِ دل آج بھی اندھے کنویں کی ہے مکیں
روشنی چہرے کی ساری گرد کیونکر دھو گئی
دیکھ کر احساس کی زرخیز سی پھیلی زمیں
بیج زخموں کے، ہماری زیست لاکر بو گئی
بوجھ تھا مجھ پر گناہِ آرزوۓ یار کا......!
اپنا سامانِ سفر یہ زندگی خود ڈھو گئی
میں سمندر کی طرح پھیلا ہوا تھا لہر لہر!
میری وسعت اس جبیں کی سلوٹوں میں کھو گئی
____________
No comments:
Post a Comment