Wednesday, January 25, 2012

غزل : سر پہ ہے فلک اس کا یقین ہے کہ نہیں ہے

غزل

سر پہ ہے فلک اس کا یقین ہے کہ نہیں ہے
ہاں پاؤں تلے کوئی زمیں ہے کہ نہیں ہے

پھرتی ہے رگ و پے میں تری، موج لہو کی
چاہت بھی مری اس میں کہیں ہے کہ نہیں ہے

جھکتا ہے فلک چومنے جس شخص کی عظمت
دیکھو کہ وہی خاک نشیں ہے کہ نہیں ہے

اُس نقش ِ مرقع کا وہ جادو ہے نظر میں
پوچھو کہ کوئی اور حسیں ہے کہ نہیں ہے

اب خلوتِ دل میں کوئی آہٹ نہیں ملتی
وہ جب سے ہوا پردہ نشیں ہے کہ نہیں ہے

ڈھونڈو کہ میری جاں میں کوئی نقش ہے اسکا
چھوڑا تھا جسے میں نے یہیں ہے کہ نہیں ہے

چمکے جو میری آنکھ میں دلدار کی صورت
پتھر میں کوئی ایسا نگیں ہے کہ نہیں ہے
 _______________
Rashid Fazli

No comments:

Post a Comment