Monday, January 9, 2012

غزل : میں شاید بد دعا ہوں اک شجر کی

غزل

میں شاید بد دعا ہوں اک شجر کی
کھڑی ہے دھوپ سر پر دوپہر کی

مجھے نابینا آنکھیں گھورتی ہیں
یہ قیمت دے رہا ہوں میں نظر کی

شرافت ہے ابھی دنیا میں باقی
ذرا تصدیق کر لوں اس خبر کی

دُکھایا دل مرا تم نے بھی اتنا
محبت میں نے تم سے جس قدر کی

مری رگ رگ میں آکر چل رہی ہے
تھی دنیا کو ضرورت رہ گزر کی

ابھر آیا غبار آلود منظر
کبھی تصویر جو کھینچی سفر کی
_____________

No comments:

Post a Comment