غزل
دریا دریا آنکھ تری اور ایک ترستا صحرا میں
تیرے درد کو لیکر جب بھی ہوا چلی تو بِکھرا میں
یوں تو اپنا ظاہر باطن جو کچھ بھی ہے ظاہر ہے
جانے کن کن آنکھوں کا ہوں آج بھی پہلا دھوکا میں
اپنی ذات کے اندر باہر سیلِ طرب ہے دنیا کا!
بہتے ہوئے اک دریا میں ہوں پھر بھی پیاسا پیاسا میں
گھر کے یاس زدہ چہروں پر گرد جمی تھی صدیوں کی
دشت سفر کی دھوپ کو لیکر جب بھی گھر کو لوٹا میں
اپنے دکھوں کے سیل رواں میں پتھر بن کر بیٹھا ہوں
رات اندھیری آنکھ میں رکھ کر جاگ رہا ہوں تنہا میں
آتے جاتے مسافر دل کے دھوپ جلن اور تنہائی
اپنے شہر کے سونے پن کا چلتا ہوا اک رستہ میں
دل کے اندر گھر ہے میرا، بھس بدل کر رہتا ہوں
چاہت میری وہ کیا جانے، جس کی نظر کا دھوکا میں
No comments:
Post a Comment