غزل
اُسی کے ساتھ رہِ لذتِ سحر بھی گئی
وہ خواب دیکھا تھا جس سے مری نظر بھی گئی
تھی آس جیسی وہ نازک سی کانچ کی مورت
کسی خیال سے ٹکرا کے جو بکھر بھی گئی
میں دیکھتا رہا دریا کے گہرے پانی کو
وہ کشتیء دل و جاں سے مری اتر بھی گئی
ہے دھوپ جیسی یہ شہرت بھی آدمی کی میاں
چڑھی تھی صبح مگر شام کو اُتر بھی گئی
جو چھو کے تجھ کو چلی تھی وہ مست روسی ہوا
چرا کے اپنا بدن مجھ سے یوں گزر بھی گئی
مرے دماغ میں باہر کا حشر اتنا ہے
بلا کے شور میں اپنی صداۓ گھر بھی گئی
کشش تھی اتنی بلا کی ہرے سمندر میں
کہ سطح ِ آب پہ جاکر نظر ٹھہر بھی گئی
__________________
Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment