غزل
کتنی یادوں کا پیکر لئے نام ہیں جو کھدے ہیں شجر تا شجر دور
تک
اک کہانی ہر اک نام کہتا رہا جب کیا جنگلوں کا سفر دور تک
اِس کڑی دھوپ میں ہم سفر کون ہے میرا سایہ ہے یا خواب ہے
رات کا
اے ہوا، مرے احساس کی توُ بتا ساتھ چلنا ہے کس کو مگر دور
تک
سرمئی شام تھی اک تری یاد کی جس میں بادل تھا، بارش، ہوا،
دھوپ بھی
مرے جذبات میں جو دھنک رنگ تھا اس کا پھیلا ہوا تھا اثر دور
تک
وہ گلی جس میں تم بھی کبھی ساتھ تھے اب تو خوابوں کی دہلیز
پر رہ گئی
میرے شانے کا ہجرت نے بوسہ لیا ساتھ پھر کیوں رہا اپنا گھر
دور تک
ہر قدم روکتی خواہشوں کا سفر، آنکھ میں حیرتوں کا وہی سلسلہ
یوں تو مشکل تھی راہِ طلب زیست کی، لے گئی مجھ کو میری نظر دور
تک
میرے اندر کے سارے ہنسیں رنگ تو تیرے چہرے کے پھولوں کی
زینت بنے
اب تو موسم کی رعنائیوں میں تری، میرا بکھرا ہوا ہے ہنر دور
تک
زندگی میں مری یوں بھی اکثر ہوا، تازہ دم اک ہوا ہجر کی رات
میں
مجھ کو لیکر چلی رفعتوں کی طرف آسمانوں میں بکھرے گہر دور
تک
_________________
Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment