غزل
اندر اندر ٹوٹ رہا ہے صورت گر بھی کیسا ہے
چہرہ مہرہ صاف سلونا ایسا پیکر جس کا ہے
اِن آنکھوں میں رات گئے تک درد جگائے رکھتا ہے
ہجر کی صورت سایا سایا جانے کون سا چہرہ ہے
اس کی نظر سے گر جانے کی خواہش دل میں اُبھری ہے
اپنے نام کا آنسو جب بھی اس کی آنکھ میں دیکھا ہے
اپنے قدم کی ہر جنبش سے اکثر ڈرتا رہتا ہوں
مجھ سے آگے چلنے والا، مرے درد کا سایا ہے
اکثر وہ بھی زندہ ہو کر تنہائی میں ملتے ہیں
جن لمحوں کی لاش کو ہم نے اپنے سر پر ڈھویا ہے
گھر لوٹے تو اس کی خوشبو پھر سانسوں سے لپٹی ہے
جس بستی میں جاکر ہم نے اپنا سب کچھ کھویا ہے
اپنے لہو کی موج سے کٹنا، پھر بھی راشد چپ رہنا
اپنے پانی سے کٹتا ہے آخر جو بھی دریا ہے
_____________
No comments:
Post a Comment