غزل
ہے جسم یہ اپنا تو رگِ جاں ہے کوئی اور
میں درد ہوں جس شخص کا درماں ہے کوئی اور
اس لذتِ آزاد کا رشتہ نہیں ملتا
کانٹا ہے مرے دل میں پریشاں ہے کوئی اور
ذی حس ہے تو اس دور میں دشوار ہے جینا
جیتا ہے جو اس دور میں انساں ہے کوئی اور
دیکھو کہ یہی میری بصارت کا ہنر ہے
ہے دشت مرے دل کا یہ، ویراں ہے کوئی اور
اُس خالق ِ صد ناز کا جلوہ ہے یہ دنیا
ہے آئینہ اس کا مگر حیراں ہے کوئی اور
یہ راز ابھی تک تو نہیں مجھ پہ کھلا ہے
کرتا ہے گنہ کوئی پشیماں ہے کوئی اور
سمجھا دو ذرا جاکے اُسی ننگِ نظر کو
کپڑے تو پھٹے میرے ہیں عریاں ہے کوئی اور
سوچا کہ کہوں تجھ کو "کوئی اور" غزل میں
اب میرے خیالوں سے گریزاں ہے کوئی اور
ہر لمحہ مرے ساتھ مرا نقش دوئی ہے
کہتا ہوں غزل میں تو غزل خواں ہے کوئی اور
ہیں خار ہی راشد تیرے دامن کا مقدر
گرتے ہیں جہاں پھول وہ داماں ہے کوئی اور
_________________
Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment