Wednesday, January 18, 2012

غزل : آخر کو پھیلتا گیا بوۓ وصال کا سفر

غزل

آخر کو پھیلتا گیا بوۓ وصال کا سفر
اس نے مجھے جو دے دیا حسن ِ خیال کا سفر

کون ہو تم؟ کہاں کے ہو؟ کون ہے جانتا تمہیں؟
کرنا ہے طے سبھی کو اب ایسے سوال کا سفر

خوش ہیں سبھی فریب پر، کس کو پڑی کہ طے کرے
جھوٹ سے سچ کے بیچ ہے کتنے وبال کا سفر

خوابوں کو دیکھتے رہو، خوابوں کو سوچتے رہو
آنکھوں میں جاگتا ہو جب شوق ِ جمال کا سفر

جذبے نہ گرم ہو سکے، برف تھی ایسی ہر طرف
سارے طیور کر گئے پھر سے شمال کا سفر

ہجر سے یوں وصال تک، لمحے کا فاصلہ نہیں
پھر بھی یہ زندگی ہے کم، اتنے کمال کا سفر

لکھنا تھا زندگی کو کچھ میرا یہ ظرف دیکھ کر
میری جبیں پہ لکھ دیا گردِ ملال کا سفر

اُس سے جدا ہوئے تواب کھلتے گئے ہیں راستے
کرتے رہو بس عمر بھر اسپِ خیال کا سفر

راشد اڑان بھر گیا لفظوں کے پر پہ بیٹھ کر
نظروں میں اس کے تھا کہیں اوج ِ کمال کا سفر
______________
Rashid Fazli

No comments:

Post a Comment