غزل
ہے اور بھلا کیا جو قیامت میں بچا ہے
ہر شخص خود اپنی ہی طرف بھاگ رہا ہے
دَشنام نہیں، لب پہ ہنسی مکر ہے دل میں
اب دل کے دُکھانے کا بھی انداز نیا ہے
وہ بھی تو طلب گارِ عنایت ہے کسی کا
اک پیڑ جو بے برگ و ثمر دور کھڑا ہے
اک پیڑ جو بے برگ و ثمر دور کھڑا ہے
پھرتی ہے رگوں میں مری "دنیا" کہ لہو کا
یہ دُکھ بھی مجھے خود مرے اپنوں نے دیا ہے
ویرانئ ہستی میں تیری یاد کی خوشبو
بس یوں ہے کسی دشت میں اک پھول کھلا ہے
لے جاؤ کہ جذبات کے کچھ رنگ ہیں اسمیں
اس دل کے سوا اور مرے پاس بھی کیا ہے
انداز محبت کے سمجھتا ہے جو دل سے
قربت میں وہی شخص بڑی دور گیا ہے
لکھ دیتا ہوں میں آج یہ چہرے پہ ہوا کے
راشد کو کوئی زخم ِ ہُنر خاص لگا ہے
______________
A Ghazal by Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment