غزل
کسی کو کچھ نہیں معلوم کیا ہے
یہ اپنی زندگی ہے یا ہوا ہے
اگر آواز دو سُنتا نہیں ہے
جسے دیکھو وہی کم دیکھتا ہے
نظر کو ہے ضرورت آگہی کی
مکاں اندر سے خالی ہو چکا ہے
سمجھ لو کہ نہیں ملتا ہے جو کچھ
وہی تو زندگی کا حوصلہ ہے
محبت کی کہانی اب یہی ہے
جسے چاہو وہی کچھ چاہتا ہے
غرض ہم نے بھی سیکھا ہے تمہیں سے
ملو اس سے کہ جس سے کچھ ملا ہے
کسی کے ساتھ کیوں کوئی چلے گا
ہر اک کا اپنا اپنا راستہ ہے
یقیناً شہر اب زندہ نہیں ہے
وہی خاموشیوں کا سلسلہ ہے
یہی ہے کرب قربت کا کہ راشد
ہر اک سے مل کے تنہا ہو گیا ہے
__________
No comments:
Post a Comment