Thursday, January 12, 2012

غزل : میری تشنگی کے عذاب کا کوئی ایک رنگ نیا نہ ہو

غزل

میری تشنگی کے عذاب کا کوئی ایک رنگ نیا نہ ہو
یہ جو ٹوٹ کر ہے بکھر گئی کسی آرزو کی صدا نہ ہو

مرے جذبۂ غمِ یار کو بھی سفر میں ساتھ لئے پھری
کسی در پہ آکے جو رُک گئی وہ تھکی تھکی سی ہوا نہ ہو

تری آرزو کی دھنک بھی ہے ترے جسم و جاں کی مہک بھی ہے
یہ جو خواب ہے مری آنکھ میں کہیں ایک سیل ِ بلا نہ ہو

کبھی قربتوں میں نہ مل سکی، کبھی فاصلوں سے گزر گئی
وہی ایک حدِّ نظر تری جو کہ مستجابِ دعا نہ ہو

کسی نیلی جھیل سی آنکھ میں مرا نام تیرتا ہے ابھی
ذرا غور سے اسے دیکھنا کہ سرابِ جاں پہ لکھا نہ ہو

مجھے چھوڑ کر بھی وہ یوں گیا، یہیں دشت، دشت میں بو گیا
یہ اُگی ہوئی سی مسافتیں مری حسرتوں کو بقا نہ ہو

وہ نگاہِ ناز تھی اک تری، رگ و پئے میں میرے اتر گئی
کہ غزل بھی جس سے مہک اٹھی کہیں زخم ایسا لگا نہ ہو

اِنہیں آندھیوں میں گِھرا ہوا میں ہوں ایک ٹیلہ سا ریت کا
اُسے کاٹنی بھلا کیا ہوا جو ہوا کی زد پہ رہا نہ ہو
______________

Rashid Fazli


No comments:

Post a Comment