Tuesday, January 3, 2012

غزل : سیاہ رات کبھی آنکھ میں اُترتی ہے

غزل

سیاہ رات کبھی آنکھ میں اُترتی ہے
تو سونے والے سے پوچھو کہ کیا گزرتی ہے

اندھیرے گھر میں اندھیرا ہی آج رہنے دو
سنہری دھوپ مری، روشنی سے ڈرتی ہے

بِکو کہ تم بھی خریدے ہی جاؤ گے اک دن
ہر ایک شخص کا سودا یہ دنیا کرتی ہے

میں بے کسی کو گلے سے لگاۓ پھرتا ہوں
سنا ہے موت بھی اب بے کسی سے ڈرتی ہے

تھکن سے چور مسافر ٹھہر تو جاتا ہے
مگر یہ نیند کہاں آنکھ میں ٹھہرتی ہے

دھنک کا کھل ہے یہ روشنی کے سنگم پر
اداس آنکھوں کی کالی گھٹا بکھرتی ہے
________________

No comments:

Post a Comment