Saturday, January 28, 2012

غزل : کہنے کو زندگی میں تو بیباک تھے بہت

غزل

کہنے کو زندگی میں تو بیباک تھے بہت
لب سِی لئے کہ دل میں لگے چاک تھے بہت

مٹی سے کھیلنے کا سلیقہ رہا ہمیں
خاک ہم نے اوڑھ رکھی تھی پوشاک تھے بہت

سورج کو اپنی آنکھ میں رکھ کر وہ سو گئے
بستی کے سارے لوگ ہی چالاک تھے بہت

نشتر لگا تو حسن اُجاگر ہوا کہیں
پھولوں کی ہر قبا میں جڑے چاک تھے بہت

تنہائیاں بھی جل گئیں پرچھائیوں کے ساتھ
جنگل تھا آدمی کا تو خاشاک تھے بہت

سایہ پکڑ رہا تھا کوئی دھوپ میں کھڑا
اِس حادثے پہ لوگ بھی غمناک تھے بہت

اُن کو عذابِ زیست کا کرنا پڑا حساب
اپنے حسابِ زیست میں جو پاک تھے بہت
_________
Rashid Fazli

Wednesday, January 25, 2012

غزل : سر پہ ہے فلک اس کا یقین ہے کہ نہیں ہے

غزل

سر پہ ہے فلک اس کا یقین ہے کہ نہیں ہے
ہاں پاؤں تلے کوئی زمیں ہے کہ نہیں ہے

پھرتی ہے رگ و پے میں تری، موج لہو کی
چاہت بھی مری اس میں کہیں ہے کہ نہیں ہے

جھکتا ہے فلک چومنے جس شخص کی عظمت
دیکھو کہ وہی خاک نشیں ہے کہ نہیں ہے

اُس نقش ِ مرقع کا وہ جادو ہے نظر میں
پوچھو کہ کوئی اور حسیں ہے کہ نہیں ہے

اب خلوتِ دل میں کوئی آہٹ نہیں ملتی
وہ جب سے ہوا پردہ نشیں ہے کہ نہیں ہے

ڈھونڈو کہ میری جاں میں کوئی نقش ہے اسکا
چھوڑا تھا جسے میں نے یہیں ہے کہ نہیں ہے

چمکے جو میری آنکھ میں دلدار کی صورت
پتھر میں کوئی ایسا نگیں ہے کہ نہیں ہے
 _______________
Rashid Fazli

Monday, January 23, 2012

غزل : تمام عمر اُسے مجھ سے کچھ گِلا سا رہا

غزل

تمام عمر اُسے مجھ سے کچھ گِلا سا رہا
میں اُس کے ہونٹ پہ گویا کہ اک دعا سا رہا

اُسی کا خواب مجھے رات بھر جگاتا ہے
وہ ایک شخص جو مجھ سے سدا خفا سا رہا

یہ اور بات تھی اپنا لیا تھا غیروں نے
میں اپنے آپ سے کتنا جُدا جُدا سا رہا

کہاں کا درد سمیٹا تھا جھیل آنکھوں نے
وہ چاند چہرہ بھی اکثر بجھا بجھا سا رہا

جگا رہا ہوں اُسی خواب کو اب آنکھوں میں
جو میری زیست کے جنگل میں اک صدا سا رہا

وہ آئنے جو مرے گِرد جال بُنتے تھے
میں اُن سے دور نہ تھا پھر بھی فاصلہ سا رہا

رُتوں کے چہرے بدلتے ہوئے تو دیکھے تھے
مگر یہ رنگ جو خوشبو کا تھا اُڑا سا رہا

میں سونپتا اُسے کس کو کہ میرا قاتل تھا
جو درد بن کے مرے دل میں بھی چھپا سا رہا
_____________
Rashid Fazli

Friday, January 20, 2012

غزل : اندر اندر ٹوٹ رہا ہے صورت گر بھی کیسا ہے

غزل

اندر اندر ٹوٹ رہا ہے صورت گر بھی کیسا ہے
چہرہ مہرہ صاف سلونا ایسا پیکر جس کا ہے

اِن آنکھوں میں رات گئے تک درد جگائے رکھتا ہے
ہجر کی صورت سایا سایا جانے کون سا چہرہ ہے

اس کی نظر سے گر جانے کی خواہش دل میں اُبھری ہے
اپنے نام کا آنسو جب بھی اس کی آنکھ میں دیکھا ہے

اپنے قدم کی ہر جنبش سے اکثر ڈرتا رہتا ہوں
مجھ سے آگے چلنے والا، مرے درد کا سایا ہے

اکثر وہ بھی زندہ ہو کر تنہائی میں ملتے ہیں
جن لمحوں کی لاش کو ہم نے اپنے سر پر ڈھویا ہے

گھر لوٹے تو اس کی خوشبو پھر سانسوں سے لپٹی ہے
جس بستی میں جاکر ہم نے اپنا سب کچھ کھویا ہے

اپنے لہو کی موج سے کٹنا، پھر بھی راشد چپ رہنا
اپنے پانی سے کٹتا ہے آخر جو بھی دریا ہے
_____________

Thursday, January 19, 2012

غزل : ہے اور بھلا کیا جو قیامت میں بچا ہے

غزل

ہے اور بھلا کیا جو قیامت میں بچا ہے
ہر شخص خود اپنی ہی طرف بھاگ رہا ہے

دَشنام نہیں، لب پہ ہنسی مکر ہے دل میں
اب دل کے دُکھانے کا بھی انداز نیا ہے

وہ بھی تو طلب گارِ عنایت ہے کسی کا
اک پیڑ جو بے برگ و ثمر دور کھڑا ہے

پھرتی ہے رگوں میں مری "دنیا" کہ لہو کا
یہ دُکھ بھی مجھے خود مرے اپنوں نے دیا ہے

ویرانئ ہستی میں تیری یاد کی خوشبو
بس یوں ہے کسی دشت میں اک پھول کھلا ہے

لے جاؤ کہ جذبات کے کچھ رنگ ہیں اسمیں
اس دل کے سوا اور مرے پاس بھی کیا ہے

انداز محبت کے سمجھتا ہے جو دل سے
قربت میں وہی شخص بڑی دور گیا ہے

لکھ دیتا ہوں میں آج یہ چہرے پہ ہوا کے
راشد کو کوئی زخم ِ ہُنر خاص لگا ہے
______________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli


Wednesday, January 18, 2012

غزل : آخر کو پھیلتا گیا بوۓ وصال کا سفر

غزل

آخر کو پھیلتا گیا بوۓ وصال کا سفر
اس نے مجھے جو دے دیا حسن ِ خیال کا سفر

کون ہو تم؟ کہاں کے ہو؟ کون ہے جانتا تمہیں؟
کرنا ہے طے سبھی کو اب ایسے سوال کا سفر

خوش ہیں سبھی فریب پر، کس کو پڑی کہ طے کرے
جھوٹ سے سچ کے بیچ ہے کتنے وبال کا سفر

خوابوں کو دیکھتے رہو، خوابوں کو سوچتے رہو
آنکھوں میں جاگتا ہو جب شوق ِ جمال کا سفر

جذبے نہ گرم ہو سکے، برف تھی ایسی ہر طرف
سارے طیور کر گئے پھر سے شمال کا سفر

ہجر سے یوں وصال تک، لمحے کا فاصلہ نہیں
پھر بھی یہ زندگی ہے کم، اتنے کمال کا سفر

لکھنا تھا زندگی کو کچھ میرا یہ ظرف دیکھ کر
میری جبیں پہ لکھ دیا گردِ ملال کا سفر

اُس سے جدا ہوئے تواب کھلتے گئے ہیں راستے
کرتے رہو بس عمر بھر اسپِ خیال کا سفر

راشد اڑان بھر گیا لفظوں کے پر پہ بیٹھ کر
نظروں میں اس کے تھا کہیں اوج ِ کمال کا سفر
______________
Rashid Fazli

Tuesday, January 17, 2012

غزل : اُسی کے ساتھ رہِ لذتِ سحر بھی گئی

غزل

اُسی کے ساتھ رہِ لذتِ سحر بھی گئی
وہ خواب دیکھا تھا جس سے مری نظر بھی گئی

تھی آس جیسی وہ نازک سی کانچ کی مورت
کسی خیال سے ٹکرا کے جو بکھر بھی گئی

میں دیکھتا رہا دریا کے گہرے پانی کو
وہ کشتیء دل و جاں سے مری اتر بھی گئی

ہے دھوپ جیسی یہ شہرت بھی آدمی کی میاں
چڑھی تھی صبح مگر شام کو اُتر بھی گئی

جو چھو کے تجھ کو چلی تھی وہ مست روسی ہوا
چرا کے اپنا بدن مجھ سے یوں گزر بھی گئی

مرے دماغ میں باہر کا حشر اتنا ہے
بلا کے شور میں اپنی صداۓ گھر بھی گئی

کشش تھی اتنی بلا کی ہرے سمندر میں
کہ سطح ِ آب پہ جاکر نظر ٹھہر بھی گئی
__________________
Rashid Fazli

Monday, January 16, 2012

غزل : ہے جسم یہ اپنا تو رگِ جاں ہے کوئی اور

غزل

ہے جسم یہ اپنا تو رگِ جاں ہے کوئی اور
میں درد ہوں جس شخص کا درماں ہے کوئی اور

اس لذتِ آزاد کا رشتہ نہیں ملتا
کانٹا ہے مرے دل میں پریشاں ہے کوئی اور

ذی حس ہے تو اس دور میں دشوار ہے جینا
جیتا ہے جو اس دور میں انساں ہے کوئی اور

دیکھو کہ یہی میری بصارت کا ہنر ہے
ہے دشت مرے دل کا یہ، ویراں ہے کوئی اور

اُس خالق ِ صد ناز کا جلوہ ہے یہ دنیا
ہے آئینہ اس کا مگر حیراں ہے کوئی اور

یہ راز ابھی تک تو نہیں مجھ پہ کھلا ہے
کرتا ہے گنہ کوئی پشیماں ہے کوئی اور

سمجھا دو ذرا جاکے اُسی ننگِ نظر کو
کپڑے تو پھٹے میرے ہیں عریاں ہے کوئی اور

سوچا کہ کہوں تجھ کو "کوئی اور" غزل میں
اب میرے خیالوں سے گریزاں ہے کوئی اور

ہر لمحہ مرے ساتھ مرا نقش دوئی ہے
کہتا ہوں غزل میں تو غزل خواں ہے کوئی اور

ہیں خار ہی راشد تیرے دامن کا مقدر
گرتے ہیں جہاں پھول وہ داماں ہے کوئی اور
_________________
Rashid Fazli

Saturday, January 14, 2012

غزل : ہم جو اہل نظر نہیں ہوتے

غزل

ہم جو اہل نظر نہیں ہوتے
اس قدر دربدر نہیں ہوتے

میری سانسوں کے ساتھ چلتے ہو
تم کہاں ہمسفر نہیں ہوتے

دل پہ جتنا سکوت طاری ہے
اتنے ویران گھر نہیں ہوتے

خاک ہوتے تری گلی کی ہم
قصۂ مختصر نہیں ہوتے

کوئی شاہد ضرور ہوتا ہے
لوگ خود معتبر نہیں ہوتے

قربتوں میں بھی ہم نے دیکھا ہے
فاصلے مختصر نہیں ہوتے

تم سے یوں گر بچھڑ نہیں جاتے
آج ہم رہگزر نہیں ہوتے
_________
Rashid Fazli

Friday, January 13, 2012

غزل : کتنی یادوں کا پیکر لئے نام ہیں جو کھدے ہیں شجر تا شجر دور تک

غزل

کتنی یادوں کا پیکر لئے نام ہیں جو کھدے ہیں شجر تا شجر دور تک
اک کہانی ہر اک نام کہتا رہا جب کیا جنگلوں کا سفر دور تک

اِس کڑی دھوپ میں ہم سفر کون ہے میرا سایہ ہے یا خواب ہے رات کا
اے ہوا، مرے احساس کی توُ بتا ساتھ چلنا ہے کس کو مگر دور تک

سرمئی شام تھی اک تری یاد کی جس میں بادل تھا، بارش، ہوا، دھوپ بھی
مرے جذبات میں جو دھنک رنگ تھا اس کا پھیلا ہوا تھا اثر دور تک

وہ گلی جس میں تم بھی کبھی ساتھ تھے اب تو خوابوں کی دہلیز پر رہ گئی
میرے شانے کا ہجرت نے بوسہ لیا ساتھ پھر کیوں رہا اپنا گھر دور تک

ہر قدم روکتی خواہشوں کا سفر، آنکھ میں حیرتوں کا وہی سلسلہ
یوں تو مشکل تھی راہِ طلب زیست کی، لے گئی مجھ کو میری نظر دور تک

میرے اندر کے سارے ہنسیں رنگ تو تیرے چہرے کے پھولوں کی زینت بنے
اب تو موسم کی رعنائیوں میں تری، میرا بکھرا ہوا ہے ہنر دور تک

زندگی میں مری یوں بھی اکثر ہوا، تازہ دم اک ہوا ہجر کی رات میں
مجھ کو لیکر چلی رفعتوں کی طرف آسمانوں میں بکھرے گہر دور تک
_________________
Rashid Fazli

Thursday, January 12, 2012

غزل : میری تشنگی کے عذاب کا کوئی ایک رنگ نیا نہ ہو

غزل

میری تشنگی کے عذاب کا کوئی ایک رنگ نیا نہ ہو
یہ جو ٹوٹ کر ہے بکھر گئی کسی آرزو کی صدا نہ ہو

مرے جذبۂ غمِ یار کو بھی سفر میں ساتھ لئے پھری
کسی در پہ آکے جو رُک گئی وہ تھکی تھکی سی ہوا نہ ہو

تری آرزو کی دھنک بھی ہے ترے جسم و جاں کی مہک بھی ہے
یہ جو خواب ہے مری آنکھ میں کہیں ایک سیل ِ بلا نہ ہو

کبھی قربتوں میں نہ مل سکی، کبھی فاصلوں سے گزر گئی
وہی ایک حدِّ نظر تری جو کہ مستجابِ دعا نہ ہو

کسی نیلی جھیل سی آنکھ میں مرا نام تیرتا ہے ابھی
ذرا غور سے اسے دیکھنا کہ سرابِ جاں پہ لکھا نہ ہو

مجھے چھوڑ کر بھی وہ یوں گیا، یہیں دشت، دشت میں بو گیا
یہ اُگی ہوئی سی مسافتیں مری حسرتوں کو بقا نہ ہو

وہ نگاہِ ناز تھی اک تری، رگ و پئے میں میرے اتر گئی
کہ غزل بھی جس سے مہک اٹھی کہیں زخم ایسا لگا نہ ہو

اِنہیں آندھیوں میں گِھرا ہوا میں ہوں ایک ٹیلہ سا ریت کا
اُسے کاٹنی بھلا کیا ہوا جو ہوا کی زد پہ رہا نہ ہو
______________

Rashid Fazli


Wednesday, January 11, 2012

غزل : کسی کو کچھ نہیں معلوم کیا ہے

غزل

کسی کو کچھ نہیں معلوم کیا ہے
یہ اپنی زندگی ہے یا ہوا ہے

اگر آواز دو سُنتا نہیں ہے
جسے دیکھو وہی کم دیکھتا ہے

نظر کو ہے ضرورت آگہی کی
مکاں اندر سے خالی ہو چکا ہے

سمجھ لو کہ نہیں ملتا ہے جو کچھ
وہی تو زندگی کا حوصلہ ہے

محبت کی کہانی اب یہی ہے
جسے چاہو وہی کچھ چاہتا ہے

غرض ہم نے بھی سیکھا ہے تمہیں سے
ملو اس سے کہ جس سے کچھ ملا ہے

کسی کے ساتھ کیوں کوئی چلے گا
ہر اک کا اپنا اپنا راستہ ہے

یقیناً شہر اب زندہ نہیں ہے
وہی خاموشیوں کا سلسلہ ہے

یہی ہے کرب قربت کا کہ راشد
ہر اک سے مل کے تنہا ہو گیا ہے
__________

Tuesday, January 10, 2012

تین شعر

یہ تو تیرا خواب نہیں ہے
اِن آنکھوں میں بند ہیں آنکھیں

جس پتھر کو ہم نے اٹھایا
اس پہ دیکھا کند ہیں آنکھیں

شہرت کا بازار سجا ہے
اپنی لیکن بند ہیں آنکھیں
_____________

Monday, January 9, 2012

غزل : میں شاید بد دعا ہوں اک شجر کی

غزل

میں شاید بد دعا ہوں اک شجر کی
کھڑی ہے دھوپ سر پر دوپہر کی

مجھے نابینا آنکھیں گھورتی ہیں
یہ قیمت دے رہا ہوں میں نظر کی

شرافت ہے ابھی دنیا میں باقی
ذرا تصدیق کر لوں اس خبر کی

دُکھایا دل مرا تم نے بھی اتنا
محبت میں نے تم سے جس قدر کی

مری رگ رگ میں آکر چل رہی ہے
تھی دنیا کو ضرورت رہ گزر کی

ابھر آیا غبار آلود منظر
کبھی تصویر جو کھینچی سفر کی
_____________

Saturday, January 7, 2012

تین شعر

نظر کو دھوکا سراب کیا دے
فریب خوردہ جواب کیا دے

ہو کرب جس کا جواز جینا
وہ زندگی کا حساب کیا دے

نہ دل کی قیمت، نہ آدمی کی
کسی کو کوئی جناب کیا دے
__________