Friday, December 2, 2011

غزل : ہے اندھیری شب سحر رکھتے ہیں لوگ

غزل

ہے اندھیری شب سحر رکھتے ہیں لوگ
زرد ٹہنی پر ثمر رکھتے ہیں لوگ

جی رہے ہیں دوسروں سے بے خبر
کِس قدر اپنی خبر رکھتے ہیں لوگ

بند پلکوں میں ہے خوابِ نارسا
دور رس کیسی نظر رکھتے ہیں لوگ

پڑھتے رہئے اور حیرت کیجئے
ایسا چہرہ جسم پر رکھتے ہیں لوگ

تیغِ سایہ بھی جسے کر دے الگ
اپنے شانے پہ وہ سر رکھتے ہیں لوگ

کون سنتا ہے کسی کی آج کل
اب زباں بھی بے اثر رکھتے ہیں لوگ

رات ہو جاتی ہے عریاں صبح تک
روشنی کا وہ ہُنر رکھتے ہیں لوگ

کانپتی ہے رہگزارِ عشق بھی
سر پہ اپنے جب سفر رکھتے ہیں لوگ

ہو کہاں محفوظ راشد اپنے گھر
ہر مکاں میں اپنا در رکھتے ہیں لوگ

No comments:

Post a Comment