Wednesday, December 28, 2011

غزل : تو ہے میرا نغمہ کوئی اور نہیں ہے

غزل

تو ہے میرا نغمہ کوئی اور نہیں ہے
اشکوں میں یوں ڈھلتا کوئی اور نہیں ہے

دشتِ سفر کا تھکا تھکا سا منظر ہے
مجھ میں جاگنے والا کوئی اور نہیں ہے

بادل، بارش، برق، گھٹا سب تجھ میں ہے
آج ہوا کا چہرا کوئی اور نہیں ہے

جلتی دھوپ میں سب سے اچھا خواب تمہارا
دیکھا بھالا سا یہ کوئی اور نہیں ہے

تیری پیاس کا جسم و جاں میں سیلِ رواں
مجھ میں بہتا دریا کوئی اور نہیں ہے

تجھ کو میں نے خواب کی صورت دیکھا تھا
آنکھ میں تیرے جیسا کوئی اور نہیں ہے

تیری باتیں دیواروں سے کرتا ہوں
دل کی باتیں سنتا کوئی اور نہیں ہے

آنکھ سے چھپ کر خواب میں میرے آئیگا
تیرے سامنے رستہ کوئی اور نہیں ہے
_______________

No comments:

Post a Comment