غزل
ملا تھا خواب
کی صورت وہ میرا خواب رہا
کہ جنگلوں
میں کِھلا تھا مگر گلاب رہا
مثالِ اشک اُسے
میں نے آنکھ میں رکھا
صدف بنا بھی
وہ ایسا کہ زیرِ آب رہا
وہ ایک لمحہ
جو خوشبو کا اُس نے ہم کو دیا
ہماری جاں پہ
اُسی قرض کا عذاب رہا
حسین لفظوں
کی پوشاک میں تھا پوشیدہ
میری غزل میں
وہ آیا تو بے نقاب رہا
سمیٹتی رہیں
یادیں تک اُس کو بانہوں میں
بھنور کی گود میں رہ کر بھی وہ حُباب رہا
نہ جانے جسم پہ میرے یہ کس کا چہرا تھا
کہ آئینے سے بھی اکثر مجھے حجاب رہا
بہاؤ خون کا رَگ رَگ میں ہو، کہ بڑھتے قدم
سفر میں ساتھ سدا میرے اک سراب رہا ہے
________________
No comments:
Post a Comment