Saturday, December 10, 2011

غزل : شہرِ سنگ و ریگ میں یونہی کب تک عمر گنواؤ گے

غزل

شہرِ سنگ و ریگ میں یونہی کب تک عمر گنواؤ گے
اک دن ایسا آئے گا کہ تم پتھر ہو جاؤ گے

ایک تھا طوطا، ایک تھی مینا، دونوں میں تھا پیار بہت
ایسی کہانی سوچ کے کب تک دل اپنا بہلاؤ گے

ساری امنگیں، آس، محبت مٹی کے ہیں کھیل میاں
کچے گھڑے پر بیٹھ کے کیسے دریا پار لگاؤ گے

کچے گھروندے بچپن کے کچھ اور وہ سایہ پیپل کا
تم کو سہارا دیتے رہیں گے دھوپ سے جب گھبراؤ گے

اپنے اندر بسنے والے غیروں کی کچھ فکر کرو
اپنے اندر جینے سے تو، خود کو تم جھٹلاؤ گے

قید میں رکھ لو چاہے خود کو شیشے کی دیواروں میں
پتھر سے ہی ٹکرانا ہے، جب تم باہر آؤ گے

چاٹ لہو کی لگ جاۓ گی سارے بجھتے چراغوں کو
اپنے رِستے خون سے جب تم کوئی شمع جلاؤ گے

پھول سی غزلیں لے کر راشد کیوں جاتے ہو محفل میں
زخم کا رشتہ پھول سے کیا ہے کس کس کو سمجھاؤ گے
______________


No comments:

Post a Comment