Tuesday, December 27, 2011

غزل : تھے موم سے وہ لوگ جو پتھر ہوئے نہیں

غزل

تھے موم سے وہ لوگ جو پتھر ہوئے نہیں
اتنی لچک کے بعد بھی پیکر ہوئے نہیں

خود کے محاصرے میں گزاری تمام عمر!
اور بحرِ ذات کے بھی شناور ہوئے نہیں

کیا دیکھتے جو آنکھ سے آگے بڑھے نہیں
کیا جانتے وہ دل کو جو اندر ہوئے نہیں

ہاتھوں سے چھوٹتا رہا جو کچھ ملا ہمیں
ہم اپنی بخت کے بھی سکندر ہوئے نہیں

آگاہ تھے جو اپنے رموزِ حیات سے!
خود اپنے آپ کے بھی برابر ہوئے نہیں

تھا جنکا ظرف گہرے سمندر کی طرز کا
وہ لوگ اپنی ذات کے باہر ہوئے نہیں

کیا جھیلتے وہ تیز ہواؤں کی کاٹ کو
جو پیڑ اپنے آپ تناور ہوئے نہیں

کیوں ٹھوکروں کا اپنی جبیں پر نشان ہے
ہم تو کسی کی راہ کا پتھر ہوئے نہیں
 ______________

No comments:

Post a Comment