Thursday, December 15, 2011

غزل : کالی گھنی تھی مگر روشنی کی آس پر رات بسر ہو گئی

غزل

کالی گھنی تھی مگر روشنی کی آس پر رات بسر ہو گئی
پلکوں تلے خواب تھے چنتے رہے جن کو ہم اور سحر ہو گئی

عکس کو پہنے ہوئے آئینوں کے درمیاں قید رہا عمر بھر
اور مری زندگی دھند کی یلغار میں صرفِ نظر ہو گئی

تجھ سے بچھڑ کر مری آرزوۓ زندگی بن کے کٹی تشنگی
اور مری شاعری ڈھل کے اسی درد میں، رشکِ ہُنر ہو گئی

آنسوؤں کے ساز پر، ہجر کی مضراب سے گیت کوئی بن گیا
مری رہِ زیست پر اس کی حسیں نغمگی، رختِ سفر ہو گئی

اپنے شب و روز پر تیرۂ تقدیر کا ابر تھا پھیلا ہوا
عرش کو دیکھا کئے خاک نشیں تھے جو ہم یوں بھی بسر ہو گئی

دشت سفر میں فقط ایک اپنی ذات ہے، زادِ سفر کچھ نہیں
اب تو یہی ہے میاں اوڑھ لو پرچھائیاں دھوپ اگر ہو گئی

بات چلی رات کی، میں نے کہا چاند ہو میری شبِ زیست کا
میری اِسی بات سے اُن کو ہر اک رات میں فکرِ سحر ہو گئی
____________________

No comments:

Post a Comment