غزل
تھی نظر میں مری کمال کی شکل
گھٹ کے جو رہ گئی ملال کی شکل
لفظ اپنے تھے، جسم تیرا تھا
بن گئی یوں ترے جمال کی شکل
زخم ہنس ہنس کے مجھ سے کہتا ہے
کوئی نکلے گی اندمال کی شکل
حسن آیا پگھل کے آنکھوں میں
کس نے دیدی اسے خیال کی شکل
جانے دنیا کہاں لے آئی ہے
آج ہر شخص ہے سوال کی شکل
گردِ آئینہ صاف کرلے تو
دیکھ ماضی میں اپنے حال کی شکل
آرزوئیں، دھنک سے رنگوں میں
لمس کہ اب ہے یہی محال کی شکل
_____________
No comments:
Post a Comment