غزل
چشم حیرت میں مری یوں تو وہ ٹھہرا بھی نہیں
دیکھنا تھا جسے دم بھر اُسے دیکھا بھی نہیں
سارے چہروں پہ وہی ایک سی حیرانی ہے
زندگی جیسا کوئی اور تماشا بھی نہیں.......!
آکے ٹھہرا وہی حسرت بھرا لمحہ مجھ پر،
زندگی میں جسے شاید کبھی سوچا بھی نہیں
دل تو بھنورا تھا ہر اک پھول پہ مچلا لیکن
تجھ کو چاہا تو کسی اور کو چاہا بھی نہیں
اپنے احساسِ مقابل سے ہراساں بھی وہی
کتنا تنہا ہے وہی شخص جو تنہا بھی نہیں
غیر کے درد میں خود اپنا زیاں کرتے رہے
خود کو کھویا تو کسی اور کو پایا بھی نہیں
خود ہی بنتا ہوں بگڑتا ہوں بکھر جاتا ہوں
میں کسی اور کا گویا کہ تقاضا بھی نہیں
ڈوب جاتا ترے آنسو میں کنارا بن کر
ہے روانی پہ مگر آج یہ دریا بھی نہیں
____________
No comments:
Post a Comment